خڑ قمر واقعہ: ایم این اے محسن داوڑ اور علی وزیر کیخلاف درج مقدمہ حکومتی درخواست پر خارج

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) بنوں کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے گذشتہ سال شمالی وزیرستان میں خڑ قمر سکیورٹی چیک پوسٹ پر پیش آنے والے واقعے کی ایف آئی آر حکومت کی جانب سے مقدمہ واپس لینے کی استدعا کے بعد خارج کر دی ہے۔

شمالی وزیرستان کے علاقے خڑ قمر میں سیکیورٹی فورسز کی چوکی کے قریب مظاہرین اور اہلکاروں پر فائرنگ کے واقعہ کی ایف آئی آر پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف درج کی گئی تھی۔ ایف آئی آر کے اندارج کے بعد اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور پھر لگ بھگ چار ماہ بعد انھیں ضمانت پر رہا کیا گیا تھا۔

بدھ کے روز بنوں کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کی خصوصی سماعت خیبر پختونخوا ہاؤس ایبٹ آباد میں ہوئی۔ حکومت کی جانب سے یہ مقدمہ واپس لینے کے لیے درخواست 16 مارچ کو کی گئی تھی اور آج ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے حکومت کی درخواست اس کیس کو نمٹا دیا ہے۔

محسن داوڑ اور علی وزیر کی گرفتاری کے بعد جب انھیں ہری پور جیل منتقل کر دیا گیا تھا تو محکمہ داخلہ نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے فیصلہ کیا تھا کہ مقدمے کی سماعت ہری پور عدالت میں ہو گی۔

محسن داوڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ ضمانت پر رہائی کے بعد اس فیصلے کے خلاف انھوں نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی کہ اس مقدمے کی سماعت بنوں یا پشاور میں ہونی چاہیے جسے تسلیم کر لیا گیا تھا اور سماعت کے لیے پشاور کا انتخاب ہوا۔

انھوں نے بتایا کہ اس کے بعد محکمہ داخلہ نے پھر ایبٹ آباد میں سماعت کا نوٹیفیکیشن جاری کیا اور اس کے خلاف انھوں نے پھر درخواست دی تھی جس پر حکومت کی جانب سے ان کے ساتھ رابطہ ہوا کہ وہ یہ مقدمہ واپس لینا چاہتے ہیں اور اُن سے یہ کہا گیا کہ وہ ہائی کورٹ میں دائر اپنی درخواست واپس لے لیں۔

محسن داوڑ کے مطابق انھوں نے استغاثہ سے کہا کہ اگر حکومت عدالت میں مقدمہ واپس لینے کی درخواست پیش کر دیتے ہیںتو اس کے بعد وہ اس بارے میں کوئی فیصلہ کر سکیں گے۔

انھوں نے بتایا کہ اس دوران حکومت کی جانب سے ایک خط 16 مارچ 2020 کو جاری ہوا جس میں یہ کیس واپس لینے کے لیے کہا گیا تھا۔

یہ خط ضلع بنوں کے پبلک پراسیکیوٹرز کی جانب سے جاری کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ کیس اس عدالت میں زیر سماعت ہے اور اب صوبائی حکومت کے احکامات کی روشنی میں موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کیس واپس لیا جاتا ہے۔ خط میں عدالت سے کہا گیا ہے انھیں یہ کیس پراسیکیوشن ایکٹ کے تحت واپس لینے کی اجازت دی جائے۔

خڑ قمر میں کیا ہوا تھا؟

یہ واقعہ گذشتہ سال 26 مئی کو شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل میں سکیورٹی فورسز کی خڑ قمر چیک پوسٹ کے قریب پیش آیا تھا جس میں 15 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہو گئے تھے۔

یہ واقعہ چیک پوسٹ کے قریب ہوا تھا جہاں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے کارکنان اور رہنما دھرنا دیے ہوئے تھے۔

مقامی لوگوں نے اُس وقت بتایا تھا کہ وہ علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف دھرنا دیے ہوئے تھے اور جب ان کے قائدین وہاں پہنچ رہے تھے تو انھیں دھرنے میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور پھر اچانک فائرنگ شروع ہو گئی تھی۔

لوگوں نے بتایا کہ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ فائرنگ سامنے چیک پوسٹ کی جانب سے ہو رہی تھی۔

اس واقعے کے بارے میں پی ٹی ایم اور سیکورٹی حکام کی جانب سے متضاد دعوے کیے گئے تھے۔

دونوں فریقین نے ایک دوسرے پر فائرنگ میں پہل کرنے کے دعوی کیے ہیں تاہم اس بارے میں آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔

پشتون تحفظ موومنٹ کا کیا کہنا ہے؟

شمالی وزیرستان میں پی ٹی ایم کے اراکین 25 مئی 2019 کے روز خڑ قمر چیک پوسٹ کے قریب احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے۔

پی ٹی ایم کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہا کہ مقامی لوگ علاقے میں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کی جانب سے مبینہ طور پر ایک خاتون سے بدسلوکی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں احتجاج کر رہے تھے۔

پی ٹی ایم رہنماؤں کے مطابق چیک پوسٹ پر تعینات فوجی اہلکاروں نے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی جس سے 15 افراد ہلاک اور 23 زخمی ہو گئے تھے۔

محسن داوڑ نے ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ 26 مئی کو وہ اپنے ساتھی ایم این اے علی وزیر کے ساتھ اپنے حلقے میں گئے تھے جہاں لوگ دھرنا دیے ہوئے تھے۔

وہاں موجود لوگوں نے ان کا استقبال کیا اور وہ دھرنے کی جانب روانہ ہوئے تو اس وقت لوگوں کی تعداد کافی بڑھ چکی تھی۔

اس وقت سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹ سے آگے انھیں جانے نہیں دیا جا رہا تھا اور وہ سیکورٹی اہلکاروں سے بات چیت کر رہے تھے کہ معاملہ سلجھ جائے۔

اس دوران فائرنگ کی آواز آئی اور ایسا لگا جیسے ہوائی فائرنگ ہو رہی ہے لیکن اچانک فائرنگ کی آواز تبدیل ہوئی اور لوگوں کی چیخیں سُنی جا سکتی تھیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ بظاہر یہ فائرنگ چیک پوسٹ سے کی جاری تھی۔

حکومتی مؤقف کیا ہے؟

سیکورٹی حکام کے مطابق اس واقعہ سے ایک روز پہلے علاقے میں سیکورٹی فورسز کی شدت پسندوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں ایک سیکورٹی اہلکار زخمی ہو گیا تھا جبکہ دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

وقوعہ کے روز مظاہرین سیکورٹی اہلکاروں پر دباؤ ڈالنے اور ان مشتبہ افراد کو رہا کرانے کے لیے جلوس کی شکل میں آئے تھے جہاں خڑ قمر چیک پوسٹ پر روکنے کی کوشش کی تو مظاہرین نے پتھراؤ شروع کر دیا اور پھر اس کے بعد فائرنگ بھی کی جس کے نتیجے میں سکیورٹی اہلکاروں نے جوابی کارروائی کی تھی۔

سیکورٹی حکام کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس واقعہ میں تین افراد ہلاک اور پانچ سکیورٹی اہلکاروں سمیت 15 افراد زخمی ہوئے تھے۔

فوج کے تعلقات عامہ کے محکمے آئی ایس پی آر کی جانب سے اس واقعے کے بعد بیان جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مظاہرین نے سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر چڑھائی کی تھی جس کے بعد فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا۔

اس بیان میں کہا گیا تھا کہ چیک پوسٹ پر موجود اہلکاروں نے برداشت کا مظاہرہ کیا اور جب مظاہرین کی جانب سے فائرنگ ہوئی تو جوابی کارروائی میں انھوں نے فائرنگ کی جس سے تین افراد ہلاک ہوئے تھے۔

دونوں ممبرانِ اسمبلی کی گرفتاری کیسے ہوئی؟

اس واقعہ کے بعد بنوں تھانے میں ایف آئی آر درج کی گئی جس کے نتیجے میں علی وزیر سمیت آٹھ افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن محسن داوڑ کی گرفتاری نہیں ہو سکی تھی۔

محسن داوڑ نے اس دوران علاقے میں موجود رہے جہاں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔ بعد میں محسن داوڑ نے خود کو قبائلی رہنماؤں کی موجودگی میں پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔

دونوں رہنماؤں کو گرفتاری کے بعد بنوں سے ہری پور جیل منتقل کر دیا گیا تھا جہاں چار ماہ بعد یعنی ستمبر 2019 کو انھیں ہری پور جیل سے ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں