دبئی + برلن(چیف اکرام الدین) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے کہا ہے کہ پختون قوم انتہائی نازک موڑ پر کھڑی ہے، ایک طرف وہ فریق ہے جو دہشتگردی اور فساد افغانستان کے تشدد کے بعد ہزاروں پیارے گنوا چکے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ فوجی ہے جو فساد افغانستان کے وقت فوج میں بھرتی نہیں ہوئے تھے یا میجر رینک کے آفیسر تھے، اب ان فریقین کو دل کے بجائے دماغ سے سوچنا ہوگا۔
اگر فیصلے عجلت میں کیے گئے اور ایک فریق کی طرف سے بھی تشدد کا راستہ اختیار کیا گیا تو پاکستان دوسرا شام بنے گا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے دبئی میں باچا خان اور ولی خان کی برسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر اسفندیار ولی خان کا کہنا تھا کہ باچا خان اور ولی خان نے فساد افغانستان سے چالیس سال پہلے قوم کو آگاہ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے جذباتی پختونوں اور نام نہاد محب وطن لوگ جن کو اپنے پاوں کے نیچے زمین بھی نظر نہیں آتی تھی اُن پر اُس وقت طرح طرح کے الزامات لگائے اور اور اُن کو غدار قرار دیا گیا لیکن آج حکومت سے لیکر فوجیوں تک سب کے سب فساد افغانستان کو فساد قرار دے رہے ہیں، وہ جرنیل جو آج فساد افغانستان کو فساد قرار دے رہے ہیں اُن سے پوچھنا چاہوں گا کہ یہ فساد کس نے شروع کیا تھا؟
قوم کو یہ وضاحت بھی دے دیں تاکہ قوم کے ذہنوں سے غلط فہمیاں دور ہو جائے اگر ہم آج بھی اپنے قوم سے جھوٹ بولتے رہینگے تو اُس جھوٹ کا انجام بہت بھیانک ہوگا۔
اسفندیار ولی خان نے مزید کہا کہ آج پختون قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی باتیں ہورہی ہیں، آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے کچھ دن پہلے بھی اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ پختون قوم پرست قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کا خواہشمند ہے،ایک بار پھر کھلے دل سے آفتاب احمد خان شیرپاؤ سے کہنا چاہوں گا کہ وقت اور جگہ کا تعین وہ کریں کوئی آئے یا نہ آئے پختونوں کی وحدانیت کے خاطرا سفندیار ولی بذات خود اُس جرگہ میں شریک ہوگا جو پختونوں کو متحد کرنے کے حوالے سے ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ سازش کے تحت پختون قیادت کو پارلیمنٹ سے باہر رکھا گیا لیکن سیاست سے پختون قیادت کو کوئی بھی باہر نہیں کرسکتا، اسٹیبلیشمنٹ کو بھی یہ واضح پیغام دینا چاہوں گا جو کھیل انہوں نے اس الیکشن میں کھیلا ہے یہ کھیل وہ ہر الیکشن میں نہیں کھیل سکتے،اب بچہ بچہ بھی اسٹیبلیشمنٹ کے کھیل کو سمجھ گیا ہے کہ کیوں پختون قیادت اور اصل عوامی نمائندوں کو پارلیمنٹ سے باہر رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی نے باچا خان اور ولی خان کے خوابوں کو تعبیر دیا ہے،صوبے کا نام اور صوبائی خودمختاری ہمارے اکابرین کا خواب تھا ،ہم نے اُن کے خوابوں کو تعبیر دی ہے ،ہمارے اکابرین کا ایک خواب ابھی باقی رہتا ہے کہ پختون سرزمین پر امن ہو اور اُس خواب کو سچ ثابت کرنے کیلئے ہم عدم تشدد کے ذریعے جنگ لڑرہے ہیں،
بشیر احمد بلور کی بیوی کا سوچیں، جنہوں نے اپنے خاوند کے ساتھ ساتھ اپنے جوان لخت جگر کو بھی بموں سے اُڑتے ہوئے دیکھا، میاں افتخار حسین کے بارے میں سوچیں، اُن ہزاروں اے این پی ورکرز کے بارے میں سوچیں جو اس جنگ میں شہید ہوچکے ہیں، یہ ساری قربانیاں پختون دھرتی پر قیام امن کیلئے دی جارہی ہے۔
ملکی سیاسی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے اسفندیار ولی خان نے کہا کہ مسلط وزیر اعظم آج تک اپوزیشن کے خول سے باہر نہیں نکلے اور احتساب کے اُسی پرانے نعرے کے ساتھ اپوزیشن کو دبانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں، خود پی ٹی آئی کا یہ حال ہے کہ ساری کرپٹ مافیا دیگر سیاسی جماعتوں سے نکل کر پی ٹی آئی کا حصہ بن چکا ہے،سیاسی مخالفین کو احتساب کے نام پر انتقام کا شکار بنایا جارہا ہے، شہباز شریف کی رہائی اس بات کا ثبوت ہے کہ کپتان سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے درپہ ہے۔
انہوں نے ایک بار پھر عمران خان کو چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ وہ دبئی اور ملائشیاء میں جائیدادوں کے حوالے سے مجھ پر جو الزامات لگاتے تھے وہ الزامات اب اپنی ایجنسیوں اور احتسابی اداروں کی ذریعے سچ ثابت کرکے دکھائیں۔
اگر میں نے ولی خان سے ملی ہوئی جائیداد میں ایک انچ کا بھی اضافہ کیا ہو تو مجھے پھانسی پر چڑھائیں لیکن میرے احتساب کے بعد عمران خان اپنا احتساب بھی کریگا اور یہ وضاحت کریگا کہ اُس کی باجی کے ساتھ دبئی اور امریکہ میں بے نامی جائیداد کہاں سے آئی الزام لگانا آسان ہے؛لیکن الزامات کو منطقی انجام تک پہنچانا بہت ہی مشکل ہے۔
اسفندیار ولی خان نے سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر سعودی ولی عہد کے دورے میں معاہدے پی ٹی آئی کے بجائے پاکستان کیلئے کی جارہی ہو تو ضروری ہے کہ حکومت وقت کی جانب سے دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی نہ صرف مدعو کیا جائے بلکہ اُن کو اعتماد میں بھی لیا جائے کیونکہ ساری سیاسی جماعتوں کی خواہش ہے کہ پاکستان معاشی طور پر ترقی کریں، ڈیکٹیٹر پرویز مشرف بھی بہت سے معاملات میں سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیتا تھا لیکن کپتان کو یہ ہمت بھی نصیب نہیں ہوئی کہ سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیکر ملکی ترقی کیلئے راستے کھولے۔
انہوں نے افغان امن عمل کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت پاکستان سے لیکر دیگر سٹیک ہولڈرز افغان امن عمل کو کامیاب کرانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اس عمل میں افغان حکومت کو اعتماد میں لے لیں،تب ہی ممکن ہے کہ افغانستان میں چالیس سال سے جاری جنگ ختم ہوسکے اگر اس امن عمل میں افغان حکومت کو نظر انداز کیا گیا تو اس کے اثرات پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک پر بھی پڑیں گے اور پاکستان ایک اور غیراعلانیہ جنگ میں چلا جائیگا۔
انہوں نے فاٹا انضمام کے حوالے سے بھی کپتان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ فیصلہ ہوا تھا کہ فاٹا انضمام کے بعد بہت جلد ہی فاٹا میں پاکستان کی دیگر حصوں کی طرح قانون نافذ کردیا جائیگا لیکن بدقسمتی سے آج بھی فاٹا کے حوالے سے اجلاسوں کی صدارت گورنر کرتا ہے جو فاٹا کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا انضمام کے فوائد قبائیلیوں تک پہنچانے کیلئے ضروری ہے کہ وہاں پر ترقیاتی عمل کے ساتھ ساتھ جلد از جلد پاکستان کی دیگر حصوں کی طرح قانون بھی نافذ کیا جائے تاکہ قبائیلیوں کی ستر سالہ محرومیوں کا ازالہ کیا جاسکے۔