باکو (ڈیلی اردو) آذربائیجان کے دوسرے بڑے شہر گنجہ میں بیلسٹک میزائل کے حملے میں 14 شہری ہلاک اور 50 سے زیادہ زخمی ہوگئے ہیں۔
آذربائیجان نے آرمینیا پر اس میزائل حملے کا الزام عاید کیا ہے جبکہ آرمینیا کی وزارت دفاع نے ایسے کسی حملے کی تردید کی ہے۔ ناگورنو قراباغ کے علاحدگی پسند حکام نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گنجہ شہر میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے لیکن انھوں نے واضح الفاظ میں اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔
https://twitter.com/wwwmodgovaz/status/1317305657599660034?s=19
آذر بائیجان کے حکام کا کہنا ہے کہ سوویت ساختہ سکڈ میزائل کے حملے میں گنجہ شہر میں کم سے کم 20 رہائشی عمارتیں تباہ ہوگئی ہیں یا انہیں جزوی نقصان پہنچا ہے۔
#Ganja city after missile attack by #Armenia/n armed forces against civilians#GanjaCity #GanjaStong #Azerbaijan pic.twitter.com/abRINrzya4
— Azerbaijan Embassy US (@azembassyus) October 17, 2020
واضح رہے کہ سابق سوویت یونین نے 1960ء کے عشرے میں سکڈ میزائل تیار کیے تھے اور یہ آج تک سابق سوویت ریاستوں کے پاس چلے آرہے ہیں۔ ان میں بھاری مقدار میں دھماکا خیز مواد ہوتا ہے لیکن یہ اپنے ہدف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔
Azerbaijan's second largest city, #Ganja, is in ruins. Rescue operations continue in the city after another missile attack by the Armenian armed forces on the night of October 17. 13 people, including 3 children, have been killed and more than 50 people wounded. @UNICEF @CNN pic.twitter.com/cgM9TTCR15
— SOCAR (@SOCARofficial) October 17, 2020
آذر بائیجان کے صدر الہام علیوف نے قوم سے نشری خطاب میں اس میزائل حملے کی مذمت کی ہے اور اس کو جنگی جرم قرار دیا ہے۔ انہوں نے آرمینیا کی قیادت کو خبردار کیا ہے کہ اس کو اس حملے کی ذمے داری قبول کرنا ہوگی۔
Armenia's fascist leadership has perpetrated next war crime, fired on the cities of Gandja and Mingechevir using tactical operational missile system. They will be held accountable for this crime. Our revenge happens on the battlefield.
— Ilham Aliyev (@presidentaz) October 17, 2020
انھوں نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ ’’آذربائیجان اس حملے کا جواب دے گا مگر یہ صرف اور صرف میدان جنگ میں دیا جائے گا۔‘‘
آذر بائیجان اور آرمینیا دونوں کے حکام ایک دوسرے کے شہری علاقوں کو حملوں میں نشانہ بنانے کی تردید کرتے ہیں لیکن 27 ستمبر سے متنازع علاقے ناگورنوقراباغ پر کنٹرول کے لیے جاری لڑائی میں اب متحارب فورسز شہری اہداف کو نشانہ بنا رہی ہیں۔
ناگورنو قراباغ کے علاقائی دارالحکومت اسٹیپنکرٹ پر رات بھر شدید گولہ باری کی گئی ہے جس کے نتیجے میں تین شہری زخمی ہوگئے ہیں۔
الہام علیوف نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ آذربائیجان کی فورسز نے قصبے فزولی اور آس پاس واقع سات دیہات پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور انھیں تزویراتی برتری حاصل ہوگئی ہے۔
فزولی ناگورنو قراباغ سے باہر سات آذربائیجانی علاقوں میں سے ایک ہے۔ ان پر آرمینیا کی فوج نے 1990ء کے عشرے کے اوائل میں قبضہ کر لیا تھا۔
دریں اثناء آذربائیجان کے حکام کا کہنا ہے کہ اب تک لڑائی میں 100 شہری ہلاک اور 270 زخمی ہوچکے ہیں لیکن انہوں نے اپنی فوج کے جانی نقصان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ہے۔
دوسری جانب ناگورنوقراباغ کے علاحدگی پسند حکام کا کہنا ہے کہ آذری فوج سے گذشتہ تین ہفتے سے جاری لڑائی میں ان کے 600 سے زیادہ فوجی اور 30 شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔
گذشتہ ہفتے کے روز متحارب فریقوں نے ماسکو میں روس کی ثالثی میں ناگورنو قراباغ میں جاری لڑائی روکنے پر اتفاق کیا تھا مگر اس کے باوجود اس متنازع علاقے میں متحارب فورسز کے درمیان بدستور لڑائی جاری ہے اور وہ ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر گولہ باری کررہے ہیں۔
آرمینیا اور آذر بائیجان کے درمیان 1991ء میں سابق سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے ناگورنو قراباغ پر کنٹرول کے لیے تنازع چل رہا ہے۔ 1990ء کے عشرے کے اوائل میں ناگورنو قراباغ نے آذر بائیجان کے خلاف جنگ کے بعد اپنی آزادی کا اعلان کردیا تھا۔اس لڑائی میں 30 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ تین سال کے بعد 1994ء میں آرمینیا اور آذربائیجان میں جنگ بندی کا ایک سمجھوتا طے پایا تھا مگر اس کے باوجود اپریل 2016ء میں دوبارہ قراباغ میں لڑائی چھڑ گئی تھی۔اس کے بعد اب دوبارہ خونیں لڑائی ہورہی ہے اور اس میں فریقین کے سیکڑوں شہری مارے گئے ہیں۔