پیرس (ڈیلی اردو/وی او اے) فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں نے کہا ہے کہ پیغمبرِ اسلام کے خاکوں پر مسلمانوں کے غم و غصے کا ادراک ہے لیکن اس معاملے پر تشدد کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
ہفتے کو عرب نشریاتی ادارے ‘الجزیرہ’ کو دیے گئے انٹرویو میں فرانسیسی صدر نے کہا کہ اُن کا ملک تشدد کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گا، بلکہ خاکوں کی اشاعت اور اظہار رائے کی آزادی کا دفاع کیا جائے گا۔
المتطرفون يُعَلِّمون انه لا يجب احترام فرنسا. هم يُعَلِّمون ان النساء لسن متساويات مع الرجال، وأن البنات الصغيرات لا يجب ان يكون لهن نفس حقوق الصبيان الصغار.
اقولها لكم بكل وضوح: ليس في بلدنا. pic.twitter.com/J25j8iw2p8
— Emmanuel Macron (@EmmanuelMacron) October 31, 2020
لیکن اُن کا کہنا تھا کہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سرکاری سطح پر خاکوں کی اشاعت کی حوصلہ افزائی کی گئی جس سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ تاثر دینا کے فرانس مسلمانوں کے خلاف ہے درست نہیں۔
فرانسیسی صدر نے کہا کہ وہ سمجھ سکتے ہیں کہ لوگ ان خاکوں کی اشاعت سے ناراض ہو سکتے ہیں، “لیکن میں ہرگز یہ اجازت نہیں دُوں گا کہ اس بنیاد پر تشدد کیا جائے۔ کیوں کہ میں اپنے ملک میں لکھنے اور سوچنے کی آزادی پر یقین رکھتا ہوں۔”
اُن کا کہنا تھا کہ “بطور صدر میرا کام ہے کہ میں معاملے کو ٹھنڈا کروں لیکن انسانی حقوق کا تحفظ بھی میرے لیے اہم ہے۔”
خیال رہے کہ فرانس میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے بعد تشدد کے دو واقعات میں چار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
حملوں کے بعد فرانس میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
جمعرات کو فرانس کے شہر نیس میں چاقو کے حملے سے تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تفتیش کاروں کے مطابق 21 سالہ مبینہ حملہ آور ابراہیم اسساوی 20 ستمبر کو غیر قانونی طور پر سمندر کے راستے تیونس سے یورپ میں داخل ہوا تھا۔
حملے کو فرانس کی حکومت نے ‘اسلامسٹ دہشت گردی’ قرار دیا ہے۔ اس حملے کے بعد ملک بھر میں خوف کی لہر پھیل گئی ہے۔
فرانسیسی صدر نے مزید حملوں کے خدشات کے پیشِ نظر ملک بھر میں مذہبی مقامات کی سیکیورٹی بڑھانے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
اس سے قبل پیرس میں ایک تاریخ کے اُستاد سیموئیل پیٹی کی جانب سے کلاس میں پیغمبرِ اسلام کے خاکے دکھانے پر بعدازاں ایک شخص نے اُنہیں ہلاک کر دیا تھا۔
ان واقعات کے بعد فرانس میں مذہبی کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا جب کہ فرانس کے صدر کی جانب سے بنیاد پرست اسلام کو خطرہ قرار دیے جانے کے بیانات کے بعد مسلمان ممالک نے اس پر احتجاج کیا تھا۔
مسلم ممالک میں فرانسیسی صدر کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔