ویانا (ڈیلی اردو/بی بی سی) آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے مرکزی حصے میں فائرنگ کے بعد کم از کم دو افراد کی ہلاکت ہوئی ہے جبکہ ایک درجن سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ رائفلوں سے لیس متعدد مسلح افراد شہر کے چھ مختلف مقامات پر حملہ کیا۔ وزارتِ داخلہ کے مطابق پولیس نے ایک حملہ آور کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ کم از کم ایک اور حملہ آور کی تلاش جاری ہے جو اب بھی مفرور ہے۔
BREAKING: Reports of a shooting at a #Vienna synagogue with casualties. This is a video from the scene. My heart is caught in my throat and I am praying for all involved. pic.twitter.com/YomV3QBVQj
— Aviva Klompas (@AvivaKlompas) November 2, 2020
اس حملے میں کم از کم 15 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے بیشتر کی حالت نازک ہے۔ آسٹریا کے چانسلر سیباسٹیئن کرز نے اس حملے کو ’قابلِ مذمت‘ قرار دیا ہے۔
https://twitter.com/disclosetv/status/1323361924671807488?s=19
ویانا کے میئر مائیکل لدویگ کے مطابق ایک شہری کی ہلاکت فائرنگ کے مقام کے قریب ہوئی جبکہ ایک خاتون اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں ہلاک ہو گئیں۔
Still active: Stay at home! If you're on the Streets, take shelter! Keep away from public places, don't use public Transportation! #0211w
— POLIZEI WIEN (@LPDWien) November 2, 2020
ویانا میں دو نومبر کی شام کو ہونے والے حملے کے بعد پولیس نے شویڈینپلاٹس سکوائر کے قریب ایک سڑک بند کر رکھی ہے
آسٹریا کے چانسلر سیباسٹیئن کرز نے ٹوئٹر پر کہا کہ ‘ہم اپنی جمہوریہ میں مشکل گھڑی سے گزر رہے ہیں۔ ہماری پولیس اس قابلِ مذمت دہشتگرد حملے کے منصوبہ سازوں کے خلاف فیصلہ کُن کارروائی کرے گی۔’
انھوں نے مزید لکھا کہ ‘ہم کبھی بھی دہشتگردی سے گھبرائیں گے نہیں، اور اس حملے کا اپنے تمام وسائل سے مقابلہ کریں گے۔’
ہم اب تک اس حملے کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
یہ واقعہ شہر کے مرکزی شویڈینپلاٹس سکوائر کے قریب پیش آیا ہے۔ پولیس نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس علاقے سے دور رہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال نہ کریں۔
وزیر داخلہ کارل نیہامر نے آسٹرین ادارے او آر ایف کو بتایا کاہ ’میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ یہ بظاہر ایک دہشتگرد حملہ ہے‘۔
فائرنگ کا یہ واقعہ ایک یہودی عبادت گاہ کے قریب پیش آیا ہے۔
یہودی برادری کے مقامی رہنما نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ حملے کا نشانہ عبادت گاہ تھی۔ حملے کے وقت عبادت گاہ بند تھی۔ ایک مقامی اخبار کے مطابق عبادت گاہ کی حفاظت پر مامور سکیورٹی گارڈ اس حملے میں زخمی ہوا ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ بھاگ رہے ہیں جبکہ پس منظر میں مبینہ طور پر گولیاں چلنے کی آوازیں آ رہی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک عینی شاہد نے سرکاری نشریاتی ادارے او آر ایف کو بتایا کہ ‘ہمیں لگا کہ یہ پٹاخے ہیں مگر بعد میں احساس ہوا کہ یہ گولیاں ہیں۔’
پڑوسی ملک جمہوریہ چیک نے کہا کہ وہ احتیاطی اقدام کے طور پر دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر مسافروں اور گاڑیوں کی تلاشی لے رہے ہیں۔
اب تک اس حملے پر کیا ردِ عمل آیا ہے؟
فرانس کے صدر ایمانوئیل میکخواں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ یورپ کو حملوں سے ‘ہمت نہیں ہارنی’ چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ ‘ہم فرانسیسی لوگ آسٹریائی لوگوں کے صدمے اور دکھ میں شریک ہیں جنھیں ان کے دارالحکومت ویانا کے دل میں اس شام ہونے والے حملے سے دھچکا لگا ہے۔ فرانس کے بعد ہمارے ایک دوست پر حملہ ہوا ہے۔ یہ یورپ ہے۔ ہمارے دشمنوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اُن کا سامنا کس سے ہے۔’
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے فرانس کے شہر نیس کے ایک گرجا گھر میں چاقو کے حملے میں تین افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن نے ویانا کے لوگوں کے لیے ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ ‘ویانا میں آج ہونے والے حملوں سے نہایت صدمے’ کے شکار ہیں۔
انھوں نے کہا کہ برطانیہ آسٹریا کے لوگوں کے ساتھ دہشتگردی کے خلاف متحد ہے۔
یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل نے اسے بزدلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ جان اور انسانی اقدار کے خلاف ہے۔
یہ ابتدائی خبر ہے اور اسے مزید مصدقہ اطلاعات موصول ہونے پر اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔