کراچی (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ سندھ کے صوبائی دارالحکومت کراچی میں مقامی ہندو آبادی اور ایک مندر پر مشتعل افراد کی جانب سے کیے جانے والے حملے کے بعد خواتین اور بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ پولیس نے ہنگامہ آرائی کرنے والے نامعلوم افراد کے خلاف سرکار کی مدعیت میں توہین مذہب کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔
کراچی کی لی مارکیٹ کے نزدیک واقع سیتل داس کمپاؤنڈ کا انتظام و انصرام متروکہ وقف املاک بورڈ کے تحت کیا جاتا ہے۔ متروکہ وقف املاک بورڈ نامی ادارہ اُن پراپرٹیز کی دیکھ بھال کرتا جن کی ملکیت تقسیم برصغیر سے قبل ہندؤوں یا سکھوں کے پاس تھی۔
اس وقت اس کمپاؤنڈ میں دو سو کے قریب ہندو خاندان آباد ہیں۔
اطلاعات کے مطابق وجہ تنازع کمپاؤنڈ سے نکلنے والا ایک جانور بنا جس پر کچھ قابل اعتراض الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔
کمپاؤنڈ کے ایک رہائشی نے بی بی سی کو بتایا کہ اتوار کی شام سات بجے کے لگ بھگ چند افراد کمپاؤنڈ کے قریب جمع ہوئے اور بتدریج اُن کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا، رات گئے تک قریباً چار سو کے قریب لوگ کمپاؤنڈ کے پاس جمع ہو چکے تھے۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ بعدازاں اِن افراد نے کمپاؤنڈ میں داخل ہو کر ’مہیشوری کمیونٹی‘ کے مندر میں توڑ پھوڑ کی اور کھڑکیوں اور دروازوں کو بھی نقصان پہنچایا اور اسی اثنا میں پولیس جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔
سوشل میڈیا پر بھی اس واقعہ سے متعلق کافی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کی گئی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگوں کا ایک ہجوم کمپاؤنڈ کے قریب جمع ہے، جن میں مختلف عمروں کے لوگ موجود ہیں۔
ایک ویڈیو میں ساڑھی میں ملبوس ایک خاتون مشتعل افراد کے ہجوم سے ہاتھ جوڑ کر التجا کر رہی ہیں کہ اب ڈھول نہیں بجے گا۔ اُن کے عقب میں ایک تنبو گرا ہوا نظر آ رہا ہے۔
ایک اور ویڈیو میں بھگوان شری گنیش کی مورتی ٹوٹی ہوئی پڑی ہے جبکہ ساتھ میں کچھ دیوی دیوتاؤں کے تصاویر زمین پر پڑی ہیں۔
ایک اور ویڈیو میں ایک شخص سندھی زبان میں کہہ رہا ہے کہ ’دیکھیں وہ ہمارا مندر توڑ کر گئے ہیں، ہم ہندوں کا یہ حال ہے یہاں۔‘
کمپاؤنڈ کے رہائشی افراد نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد ہندو برادری نے اپنی خواتین اور بچوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا ہے، جبکہ کچھ مرد حضرات ابھی بھی کمپاؤنڈ میں موجود ہیں۔
دوسری جانب ایک پولیس کانسٹیبل کی مدعیت میں تھانہ نیپیئر میں نامعلوم افراد کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ معمول کے مطابق کمپاؤنڈ کے سامنے موجود تھے جب انھوں نے یہ واقعہ رونما ہوتے ہوئے دیکھا۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی اس مندر پر حملے کا معاملہ زیر بحث رہا۔
ریکھا مہیشوری نے لکھا کہ ایک ماہ میں یہ مندر پر تیسرا حملہ تھا۔ انھوں نے مزید لکھا کہ لیاری کے سیتل ماتا کے مندر میں توڑ پھوڑ کی گئی اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک مسلسل بڑھ رہا ہے لیکن حکومت اس کی روک تھام میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔
PMC is conducting MDCAT on 15th November
and this year Diwali is on 14th November.
Thousand of Hindu candidates will be appearing in this test. How they can place test date right next day of our festival. Test date should be changed,considering Diwali.@MJibranNasir @ammaralijan— Dr Rekha Maheshwari (@DrRekha99) November 3, 2020
تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی لال ملہی لکھتے ہیں سندھ میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک بڑھ رہا ہے۔ سیتل مندر کی بیحرمتی کی گئی ہے اور ایک دوسرے واقعے میں پی ایس او کے قریب ہندو کمیونٹی کو کھانا (بھنڈارا) تقسیم کرنے نہیں دیا گیا۔
Incidents of #discrimnation against #minorities are increasing in #Sindh under #PPP rule.Yet another Sheetal #Temple vandalized in lee market. In another incident near PSO office, #Hindu community was not allowed Bhandara (distribution of cooked food and sweets) #ArzooRaja pic.twitter.com/1vvGZPFXoc
— LAL MALHI (@LALMALHI) November 2, 2020
کپل دیو لکھتے ہیں ’ایک اور دن، اور ایک اور مندر کی مشتعل افراد نے توہین کی۔ ایک اور دن جب وزیراعظم اور صدر حملے کی مذمت کریں گے اور کہیں گے اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔‘
PM @ImranKhanPTI should write a letter to himself on banning #Hinduphobia as we Pakistani Hindus face cases of #ForcedConversion, attacks on temple & bigotry almost every day.
We need #Jinnah's old Pakistan where we were assured safety of our worship places & equal citizenship.
— Kapil Dev کپل دیو (@KDSindhi) November 2, 2020
اس حوالے سے موقف جاننے کے لیے حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔