لاہور (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ پنجاب کے ضلع خوشاب میں توہین مذہب کا الزام لگا کر نیشنل بینک کے سکیورٹی گارڈ نے بینک مینیجر کو قتل کر دیا ہے۔
پولیس کے مطابق یہ واقعہ خوشاب کے علاقے قائد آباد میں پیش آیا جہاں بینک کے مینیجر عمران حنیف کو بینک کے ہی سکیورٹی گارڈ نے نشانہ بنایا ہے۔
بینک مینیجر کو بدھ کی صبح لاہور کے ایک ہسپتال میں منتقل کیا گیا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے بدھ کی شام کو دم توڑ گئے۔
خوشاب پولیس کے ترجمان محمد حارث کے مطابق واقعے کے بعد قائد آباد میں اس وقت امن وامان کا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا کیونکہ سکیورٹی گارڈ نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے بینک مینیجر کو توہین مذہب کے الزام میں قتل کیا ہے۔
پولیس کی اب تک کی کارروائی
ڈی آئی جی آپریشنز پنجاب سہیل سکھیرا نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم کے خلاف ابتدائی طور پر اقدامِ قتل کی دفعات کے تحت درج مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کر دی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا واقعے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اس پر انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کا نفاذ نہیں ہوتا۔
سہیل سکھیرا نے بی بی سی کو بتایا کہ ابتدائی تفتیش کے دوران ملزم نے بینک مینیجر پر توہین رسالت کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اس لیے اس نے قتل کرنے کی غرض سے مقتول پر گولیاں چلائیں۔
تاہم سہیل سکھیرا کا کہنا تھا کہ ‘یہ اس کا ذاتی مؤقف ہے جس کی تصدیق کے لیے گواہان یا شواہد موجود نہیں۔ پولیس ہر پہلو سے تحقیقات کرے گی جن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔’
پولیس کے مطابق اس وقت وجہ عداوت کے حوالے سے تفتیش جاری ہے اور تفتیش کے بعد ہی کہا جاسکتا ہے کہ وجہ عداوت کیا تھی۔
پولیس سٹیشن کے باہر ہجوم
یاد رہے کہ پولیس نے واقعہ کے فوراً بعد ملزم کو جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا تھا تاہم اسے قائد آباد تھانے منتقل کرنے کے دوران مقامی لوگوں کے ایک ہجوم نے اس کو گھیرے میں لے لیا تھا جو بعد ازاں جلوس کی شکل اختیار کر گیا۔
ملزم کو تھانے منتقل کرنے کے بعد لوگوں کا ہجوم بھی بڑھا یہاں تک کے اس ہجوم میں سے بہت سے افراد تھانے کی چھت تک پہنچ گئے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ملزم بھی ان کے ساتھ چھت پر موجود تھا اور نعرے بازی کر رہا تھا جبکہ نیچے موجود لوگوں کا جواب دے رہا تھا۔
سہیل سکھیرا کے مطابق اس وقت امن و امان کی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہجوم نے ابتدائی طور پر پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی کہ ملزم کو ان کے ساتھ جانے دیا جائے۔
‘پولیس نے احسن طریقے سے صورتحال کو سنبھالا۔ ہجوم میں ملزم کے گاؤں سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد بھی شامل تھے اور اس نے اس کا فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کی تھی۔’
تاہم ان کا کہنا تھا کہ جب احتجاج کرنے والے ہجوم کے سامنے اس وقت تک سامنے آنے والے حقائق رکھے گئے تو ان میں زیادہ تر از خود منتشر ہو گئے تھے۔
ہجوم کو تھانے کی چھت پر کھڑے یہ اعلانات کرتے بھی سنا جا سکتا تھا کہ ملزم کے خلاف ان کی مرضی کی یعنی صرف اقدامِ قتل کی دفعات ایف آئی آر میں شامل کی جائیں۔
درج مقدمہ میں کیا کہا گیا ہے؟
مقتول کے چھوٹے بھائی نے مقدمہ درج کرواتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کے بھائی گذشتہ ایک سال سے اس بینک میں فرائض انجام دے رہے تھے۔
’میں اکثر ان کو اپنی گاڑی پر بینک چھوڑنے کے لیے جاتا تھا، جس وجہ سے ملزم احمد نواز کو پہلے سے جانتا ہوں۔‘
ایف آئی آر میں مقتول کے بھائی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ انھوں نے واقعے والے دن اپنے مقتول بھائی کو بینک کے باہر اتارا اور تھوڑی دیر میں فائرنگ کی آواز آئی۔ ’جس پر میں اترا تو اس وقت دیکھا ملزم احمد نواز مقتول پر براہ راست فائرنگ کر رہا تھا۔‘
درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ واقعے کی وجہ عناد ’سکیورٹی گارڈ کی جانب سے ڈیوٹی پر تاخیر سے آنے پر مقتول کی جانب سے ڈانٹ ڈپٹ تھی‘۔
پاکستان میں اس سے پہلے بھی توہین مذہب کا الزام لگا کر یا مقدمے کی کارروائی کے دوران ملزمان کو قتل کیا گیا ہے
’دوہرا ظلم: قتل بھی اور توہین مذہب کا الزام بھی‘
مقتول کے بھائی نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہمارے ساتھ دوہرا ظلم ہوا ہے‘۔
ان کا کہنا ہے ’ایک تو میرا بھائی قتل ہوا ہے اور دوسرا اس کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جارہا ہے‘۔
ان کے مطابق ’ہمارے لیے ایسی صورتحال پیدا کردی گئی ہے کہ ہم اس وقت اپنی خاندان کی جان و مال کی حفاظت کے حوالے سے بھی پریشان ہیں‘۔
ان کے مطابق ’ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ہم کیا کریں‘۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت پولیس ’ہمارے ساتھ تعاون کر رہی ہے، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جلد از جلد جنازہ ادا کر کے تدفین کردیں‘۔
مقتول کے ماموں کا کہنا تھا کہ ’ملزم نے ذاتی عناد کی بنیاد پر قتل کیا ہے اور اب اس کو توہین مذہب کا رنگ دے رہا ہے‘۔