پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کی ایک یونیورسٹی کی انتظامیہ نے توہین مذہب کے مبینہ مرتکب طالب علم محمد الوزان کا داخلہ معطل کر دیا ہے۔ جب کہ یونیورسٹی میں حالات کشیدہ ہیں اور مذکورہ طالب علم کو حکام کے بقول ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
فیض آباد دھرنے کے ثمرات آنا شروع ہوچکے ہیں
نواز شریف نے ایک ریاست بالائے ریاست کی بات کی تھی یہاں تو کئی ریاستیں بالائے ریاست بن چکی ہیں
کل مذہب کے نام پر خوشاب میں قتل ہوا
آج توہین رسالت کے نام پر کوہاٹ یونیورسٹی کے ایک طالب علم محمد الوزان پر تعلیم کے دروازے بند کر دئے گئے pic.twitter.com/SSUMxxrlxz— Prof.mumtaz lakhani (@LakhaniMumtaz) November 5, 2020
کوہاٹ کی انجینیئرنگ یونیورسٹی کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پچھلے ستمبر میں ساتویں سمسٹر کے ایک طالب علم کی جانب سے سوشل میڈیا پر کی جانے والی پوسٹوں پر یونیورسٹی کے دیگر طالب علموں نے اعتراض کیا اور کئی طلباء نے نہ صرف یونیورسٹی کی انتظامیہ بلکہ پولیس کو بھی متعلقہ طالب علم کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمے کے اندراج اور کاروائی کرنے کے لئے رجوع کیا ۔تاہم یونورسٹی انتظامیہ نے فوری طور پر طالب علم اور ان کے والدین سے رابطہ کر کے انہیں یونورسٹی آنے سے روک دیا۔
کوہاٹ یونیورسٹی کا یہ طالبعلم جس پر گستاخی کا الزام ہے اور اسکو قتل کرنے کا اندیشہ اور دھمکیاں دی جارہی ہے اس سے پہلے کہ ایک اور مشال خان اس ہجوم کی نظر ہو میں اپنے حصے کا احتجاج اور آواز اٹھارہا ہوں.
پاکستان ایک ایسے دلدل میں دھنس رہا ہے جہاں شائد بچنے کا امکان نہیں رہا، میں یہ— Zumeran Imran ضمیران عمران (@ZumeranImran) November 5, 2020
یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق بدھ کے روز جب طالب علم یونیورسٹی میں دیکھا گیا تو بعض طلبا نے اسے کو مارنے اور جلانے کی کوشش کی۔ تاہم انتظامیہ نے فوری طور پر طالب علم کو تحویل میں لے کر اسے کسی محفوظ مقام پر منتقل کر دیا، جب کہ بعد میں یونیورسٹی کی اعلی اختیاراتی انتظامی کمیٹی نے ہنگامی اجلاس منعقد کرکے طالبعلم کا داخلہ منسوخ کر دیا۔
یونیورسٹی کے ترجمان ذیشان بنگش نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں اس فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ طالب علم کے والدین کو بلا کر انہیں کسی اور یونیورسٹی یا تعلیمی ادارے میں میں داخلہ دلوانے میں تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
انسانی حقوق کمشن آف پاکستان کے مرکزی ممبر کامران عارف ایڈووکیٹ نے کہا کہ جب تک ٹھوس ثبوت نہ ہو، باقاعدہ مقدمہ درج نہ کیا گیا ہو، تب تک یونیورسٹی انتظامیہ کو اس قسم کے اقدامات نہیں کرنے چاہیئں۔
ابھی تک طالب علم کے والد یا دیگر کسی رشتہ دار نے یونیورسٹی انتظامیہ کے فیصلے پر کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ جب کہ کوہاٹ پولیس کے ایک عہدیدار نے کہا کہ روزنامچے کے بنیاد مقدمہ پہلے ہی سے درج کیا جا چکا ہے اور تفتیش کی جا رہی ہے۔
ادھر پشاور کے نواحی علاقے میں پولیس نے ایک مقامی شاعر اور سیاسی کارکن کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ درج کر کے انہیں حراست میں لیا ہے۔
ملزم صمد خلیل کو ایک مقامی عدالت میں پیش کر کے ان کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے۔ مقدمے کے مطابق صمد خلیل نے سوشل میڈیا پر 29 جولائی کو پشاور کی ایک عدالت کے اندر توہین مذہب کے الزامم ایک زیر حراست امریکی نژاد باشندے کو گولیاں مار کر قتل کرنے، جب کہ خوشاب میں ایک سیکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں ایک بینک منیجر کو بھی توہین مذہب کے الزام میں قتل کے واقعات کی مذمت کی تھی۔
وزیراعظم کے مشیر برائے مذہبی امور علامہ طاہر اشرفی نے بھی خوشاب میں بینک منیجر کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
پچلھے کئی مہینوں سے ملک بھر میں توہین مذہب یا مذہبی منافرت کی بنیاد پر قتل اور تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔