اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کورونا کے باعث وفات پا گئے ہیں۔
ترجمان پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کورونا کے مرض میں مبتلا تھے اور گذشتہ کچھ عرصے سے اسلام آباد کے نجی ہسپتال کلثوم انٹرنیشنل میں زیرعلاج تھے۔
سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی اور سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کے بعد انھیں سزائے موت سنانے والے جج اور پشاور ہائئ کورٹ میں لاپتہ افراد اور ملٹری کورٹس سے سزا پانے والے افراد کے مقدمات کی سماعت کرنے والے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ لگ بھگ دو ہفتوں تک زندگی اور موت کی کشمکش میں رہے۔
وقار احمد سیٹھ کے بہنوئی محمد آصف ایڈووکیٹ نے بی بی سی کے نامہ نگار عزیز اللہ خان کو بتایا کہ تین روز پہلے ان کی حالت بہتر ہو گئئ تھی لیکن آج پھر ایک مرتبہ ان کی طبعیت خراب ہوئی تو انھیں وینٹیلیٹر پر منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔
محمد آصف نے بتایا کہ وقار احمد سیٹھ کی اہلیہ کو بھی کورونا وائرس ہوا تھا لیکن چند روز قبل ان کا ٹیسٹ منفی آیا ہے ۔
ان کی تدفین جمعہ کے روز پشاور میں ان کے آبائی قبرستان میں ہوگی۔ انھوں نے پسماندگان میں بیوہ اور ایک بیٹی چھوڑی ہے
خیبرپختونخوا بار کونسل اور پشاور ہائیکورٹ بار نے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی وفات پر شدید دکھ و افسوس کا اظہار کیا ہے۔
کورونا کے باعث ان کی ہلاکت پر پاکستان میں وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل نے کل یوم سوگ منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کل عدالتوں میں صرف ارجنٹ اور انتہائی اہم نوعیت کے امور سرانجام دیے جائے گے جبکہ معمول کی کارروائی بند رہے گی۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی نے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘عدلیہ ایک ایسے بہادر جج سے محروم ہو گئی ہے جس نے ملک میں طاقتور ترین ادارے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فیصلے کیے۔’
ان کا کہنا تھا کہ ان کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کے لیے وکلا تنظیمیں کوششیں کر رہی تھیں۔
واضح رہے کہ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ایک درخواست بھی سپریم کورٹ میں دائر کر رکھی تھی جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے جونیئر جج صاحبان کو سپریم کورٹ کا جج بنا کر ان کی حق تلفی کی گئی ہے۔
چار ماہ سے زائد عرصے سے جمع کروائی گئی ان کی اس درخواست کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی تھی۔
بیماری سے پہلے ان کی عدالت میں زیادہ تر مقدمات ان لاپتہ افراد کے بارے میں تھے جن کے بارے میں ان کے رشتہ داروں کو گذشتہ آٹھ سے بارہ سالوں سے کوئئ اطلاع نہیں ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے انٹرمنٹ سنٹرز یا حراستی مراکز کے بارے میں مقدمے کی سماعت کے لیے محکمہ دفاع اور انٹیلیجنس کے حکام کو عدالت میں طلب کر رکھا تھا۔
ان کی عدالت میں اکثر مقدمات اہم نوعیت کے ہی رہے ہیں اور اکثر وہ عدالت میں خوش مزاجی سے مقدمات سنتے تھے۔ لاپتہ افراد اور ملٹری کورٹس کے سنائے گئے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران وہ بعض اوقات سخت سوالات اٹھا دیتے تھے۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ کی ترقی سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے ہونا تھی اور اس بارے میں انھوں نے درخواست بھی دی تھی۔ سینیئر وکیل قاضی انور کے ذریعے بھیجی گئی یہ درخواست سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے نام لکھی گئی تھی جو کہ سپریم جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین بھی ہیں۔ اس کمیشن کی سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اعلی عدلیہ میں ججز کا تقرر کرنے کے ساتھ ساتھ سینیارٹی کے حساب سے ان کو عدالتِ عظمی میں تعینات کرنے کے بارے میں فیصلے کرتی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان سے جونیئر جج کو عدالتِ عظمی میں شامل کر کے ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں تعیناتی کے وضع کردہ طریقہ کار کی نفی کی گئی ہے۔
وقار احمد سیٹھ نے دو روز پہلے سپریم کورٹ میں ایک درخواست بھی دی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ میں جج کی حیثیت سے ان کی تعیناتی ان کا حق ہے ۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ اس خصوصی عدالت کے سربراہ تھے جس نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے بارے میں فیصلہ سنایا تھا ۔
وقار احمد سیٹھ کون تھے؟
چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک متوسط کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
وہ 16 مارچ 1961 کو ڈی آئی خان میں پیدا ہوئے۔ سنہ 1977 میں کینٹ پبلک سکول پشاور سے میٹرک اور 1981 میں اسلامیہ کالج پشاور سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔
سنہ 1985 میں خیبر لا کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی جبکہ سنہ 1986 میں پشاور یونیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا۔
انھوں نے سنہ 1985 میں لوئر کورٹس سے اپنی وکالت کا آغاز کیا اور 1990 میں ہائی کورٹ میں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں شروع کیں۔
مئی 2008 میں سپریم کورٹ میں وکالت شروع کی۔ ایڈیشنل جج کی حیثیت سے سنہ 2011 میں اپنی فرائض کی انجام دہی کا آغاز کیا۔
اس دوران وہ بینکنگ جج، پشاور ہائی کورٹ میں کمپنی جج بھی رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سب آرڈینیٹ جوڈیشری سروس ٹربیونل پشاور کے رکن بھی رہے۔
انہوں نے 28 جون 2018 کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے حیثیت سے حلف اٹھایا اور اب بھی چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ تعینات تھے۔
ان کے والد سیٹھ عبدالواحد سینیئر سیشن جج ریٹائرڈ ہوئے جبکہ ان کے نانا خدا بخش پاکستان بننے سے پہلے 1929 میں بننے والی صوبے کی پہلی اعلیٰ عدالت میں جج رہے تھے۔
لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کے مطابق ‘جسٹس وقار احمد سیٹھ ابتدا سے ہی روشن خیال انسان تھے اور انھوں نے لیبر لاز اور سروس لاز میں مہارت حاصل کی اور ساتھ ساتھ سول اور کریمنل کیسز بھی کرتے تھے۔’
لطیف آفریدی کے مطابق ‘جسٹس وقار احمد سیٹھ اپنی محنت سے اس مقام پر پہنچے اور ان کے فیصلے بولتے ہیں۔’
سیٹھ وقار احمد کے چند اہم فیصلے
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ وقار احمد سیٹھ کا شمار خیبر پختونخوا کے ان ججوں میں ہوتا تھا جنھوں نے انتہائی اہم معاملات میں فیصلے دیے ہیں اور پشاور کے وکلا ان فیصلوں کو ‘بولڈ’ فیصلے سمجھتے ہیں۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ایسے افراد کے مقدمات کی طرف زیادہ توجہ دی جو مالی حیثیت نہیں رکھتے یا ایسے مقدمات کو ترجیح دیتے رہے جن مقدمات میں عام طور پر عدالتوں میں تاخیر ہوتی رہی ہے۔
یاد رہے کہ ملٹری کورٹس سے سزا یافتہ 70 سے زیادہ افراد کی اپیلوں کو منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ملٹری کورٹس کے فیصلوں کے خلاف تمام درخواست گزاروں کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
اس کے علاوہ جسٹس سیٹھ نے پاکستان تحریک انصاف حکومت کے بڑے منصوبے بی آر ٹی یا بس ریپڈ ٹرانزٹ کے بارے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے کو حکم دیا تھا کہ اس بارے میں تحقیقات مکمل کریں اور رپورٹ 45 دنوں کے اندر پیش کریں۔
بی آر ٹی
جسٹس وقار سیٹھ اس خصوصی عدالت کے بھی رکن تھے جس نے سابق صدر پرویز مشرف کو آئین شکنی کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی تاہم اس فیصلے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کی تشکیل کو کلعدم قرار دے دیا۔
پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد ملک کے سیاسی و قانونی حلقوں میں بحث شروع ہو گئی تھی جس کی بنیادی وجہ اس تفصیلی فیصلے کا پیراگراف نمبر 66 تھا جسے جسٹس سیٹھ نے تحریر کیا تھا۔
پیراگراف 66 میں بینچ کے سربراہ جسٹس سیٹھ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا تھا کہ وہ جنرل مشرف کو گرفتار کرنے اور سزا پر عملدرآمد کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اگر وہ مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک لائی جائے جہاں اسے تین دن تک لٹکایا جائے۔
تاہم اس سے اگلے پیرگراف 67 میں اپنے اس حکم کی توجیہ پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ چونکہ ماضی میں کسی بھی فرد کو پاکستان میں اس جرم میں سزا نہیں دی گئی اور عدالت نے اپنا فیصلہ مجرم کی عدم موجودگی میں سنایا ہے، اس لیے اگر مجرم سزا پانے سے قبل وفات پا جاتا ہے تو یہ سوال اٹھے گا کہ آیا فیصلے پر عملدرآمد ہو گا یا نہیں اور کیسے ہو گا۔
اس کے بعد 13 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیرقانونی قرار دے دیا۔
بی بی سی نے گذشتہ برس چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ وقار احمد سیٹھ کے چند اہم فیصلوں کے بارے میں پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی ایڈووکیٹ سے بات کی تھی اور جسٹس وقار کے فیصلوں کے چند اہم فیصلوں پر انھوں نے اپنے رائے کا اظہار کیا تھا۔
ملٹری کورٹس کے خلاف درخواست گزاروں کے حق میں دیے گئے فیصلے کے بارے میں لطیف آفریدی کہتے ہیں ‘چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ملٹری کورٹس سے موت کی سزا اور عمر قید کی سزا پانے والے افراد کی ان درخواستوں پر فیصلہ دیا ‘جسے لینڈ مارک’ سمجھا جاتا ہے۔’
لطیف آفریدی کے مطابق ایکشن ان ایڈ آف سول پاورز ریگولیشن 2011 فار فاٹا اینڈ پاٹا کے بارے میں چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کے فیصلے کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس قانون کے تحت بڑی تعداد میں لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا اور یہ افراد ملٹری اداروں کے زیرِ حراست رہے۔
‘وقار احمد سیٹھ نے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات اور انسپکٹر جنرل پولیس کو ان مراکز کو اپنی تحویل میں لینے کا حکم جاری کیا تھا۔’
یاد رہے کہ جسٹس وقار احمد نے سابق چیف جسٹس دوست محمد خان کے پشاور ہائی کورٹ میں قائم انسانی حقوق سیل کو بحال کر دیا تھا۔ اس سیل میں کسی بھی درخواست پر فوری طور پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور سائل کو کوئی اخراجات بھی برداشت نہیں کرنے پڑتے۔
ان کے انتقال پر اعلی حکومتی عہدے داروں سمیت زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے اپنی ٹوئٹ میں گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کے خاندان کے لیے صبر کی دعا کی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ٹوئٹ میں وقار احمد سیٹھ کے اچانک انتقال پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کی ٹوئٹ میں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی طرف سے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ وقار احمد کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
پاکستان کے سوشل میڈیا پر جسٹس وقار احمد کی وفات کی خبر پر گہرے دکھ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ متعدد سوشل میڈیا صارفین کے جرات مندانہ فیصلوں کے باعث انہیں خراج تحیسن پیش کر رہے ہیں۔ وہیں چند افراد نے ان کی وفات پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
سابق وزیر داخلہ آفتاب خان شیر پاؤ نے بھے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کا کہ ’ہم نے ایک بہادر اور ایمان دار شخص کو کھو دیا ہے جس کا ولا برادری میں انتہائی احترام کیا جاتا تھا۔
محسن داوڑ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ مرحوم ایک اصول پسند انسان تھے۔ انہوں نے تاریخی فیصلے دیے۔ ان کا انتقال ایک بہت بڑا نقصان ہے۔
بلال پختون نامی صارف کا کہنا تھا ’جسٹس وقار کی موت ایک عظیم نقصان ہے، ان کے فیصلے تاریخ کا حصہ ہیں۔ کاش کے جسٹس وقار اپنی آنکھوں نے ان آمروں کا انجام دیکھ کر جاتے جنہوں نے اپنی ذاتی مفاد کے لیے آئین، انسانیت اور ملکی سالمیت کو تباہ کیا۔ `
اظہار الحق نامی صارف کا کہنا تھا ’سیٹھ صاحب تاریخ میں امر ہوئے ہیں،،انہوں ایک آمر کو پھانسی کی سزا سنائی تھی،،،،،،‘
توصیف صافی کا کہنا تھا ’ بہادر انسان جسٹس وقار سیٹھ نہیں رہے۔ انھوں نے مصرف کے خلاف بغاوت کے مقدے میں جرات مند فیصلہ دیتے ہوئے سزائے موت سنائی۔‘