واشنگٹن + ایران (ڈیلی اردو/اے ایف پی/روئٹرز) ایرانی دارالحکومت میں ہلاک ہونے والے ابو محمد المصری کو القاعدہ کا دوسرا اہم ترین رہنما قرار دیا جاتا ہے۔ انہیں اسرائیلی اہلکاروں نے ایک خفیہ آپریشن کے دوران رواں برس اگست میں ہلاک کیا تھا۔
ایرانی دارالحکومت تہران میں خفیہ انداز میں ہلاک ہونے والے القاعدہ کے رہنما کا نام عبداللہ احمد عبداللہ بتایا گیا ہے۔ ان کی عرفیت ابو محمد المَصری تھی۔ یہ امریکی تفتیشی ایجنسی ایف بی آئی کے دس انتہائی مطلوب افراد میں سے ایک تھے۔ امریکی ایما پر ان کو ہلاک اسرائیلی خفیہ اہلکاروں نے کیا تھا۔
نیو یاک ٹائمز رپورٹ
امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق القاعدہ کے دوسرے اہم رہنما المَصری کو موٹر سائیکل پر سوار دو اسرائیلی ایجنٹوں نے گولیاں مار کر ہلاک کیا۔ اس حملے میں ان کی بیوہ بیٹی بھی ماری گئی تھیں۔
Breaking News: Israeli agents shot Al Qaeda’s No. 2 leader on the streets of Tehran at the behest of the U.S., officials said. The killing was kept secret until now. https://t.co/tMQHqWIJvZ
— The New York Times (@nytimes) November 14, 2020
المَصری کی بیٹی القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کے بیٹے حمزہ بن لادن سے بیاہی ہوئی تھیں۔ حمزہ بن لادن بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصب سنبھالنے کے ابتدائی دو سالوں میں کسی امریکی حملے میں ہلاک ہو گیا تھا۔ چودہ ستمبر سن 2019 کو صدر ٹرمپ نے حمزہ کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
ایرانی تحویل میں میسر آزادی
امریکی تفتیش کاروں کو یقین تھا کہ سن 1998 میں تنزانیہ اور کینیا میں امریکی سفارت خانے پر کیے گئے حملوں کا مرکزی ملزم عبداللہ احمد عبداللہ تھے۔ وہ سن 2003 سے ایرانی تحویل میں تھے لیکن کسی حراستی مرکز یا جیل میں مقید نہیں تھے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق سن 2015 وہ تہران کے نواح میں واقع متمول افراد کے علاقے میں ایک آسودہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان کی نقل و حرکت پر بظاہر کوئی پابندی نہیں تھی۔
القاعدہ اور ایران میں شدید مخاصمت پائی جاتی تھی لیکن اس تنظیم کے ایک اہم اہلکار کو رہائش دینے پر تجزیہ کار حیران ہیں۔ امریکی انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں کا کہنا ہے ایرانی حکومت عبداللہ احمد عبداللہ کی مدد سے امریکی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے میں خواہش رکھتی تھی۔
ایران کی تردید
امریکی اخبار کی رپورٹ جمعہ تیرہ نومبر کو شائع ہوئی تھی اور ہفتہ چودہ نومبر کو ایران نے نیویارک ٹائمز کے ایران سے متعلق دعووں کی تردید کر دی ہے۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ کا کہنا ہے کہ یہ ایک تراشی ہوئی کہانی ہے اور سارے ایران میں القاعدہ یا کسی دوسری دہشت گرد تنظیم کا کوئی اہلکار موجود نہیں ہے۔
Iran denies claims al-Qaeda member killed in Tehran, warning US media of falling for “Hollywood-style scenario-making” by US and Israeli officials https://t.co/DCwjULAQzn pic.twitter.com/jyuhsVwikX
— Al Jazeera English (@AJEnglish) November 14, 2020
عبداللہ احمد عبداللہ کے حملے
سات اگست سن 1998 کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی اور تنزانیہ کے دارالسلام میں ایک ساتھ حملے کیے گئے تھے۔ ان دونوں مقامات پر بارود سے لدے دو ٹرکوں کا استعمال کیا گیا تھا۔ ان حملوں میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ان حملوں کا شریک ماسٹر مائنڈ عبداللہ احمد عبداللہ کو قرار دیا گیا۔ انہی حملوں کے بعد امریکی تفتیشی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی نے القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن اور ان کے دس ساتھیوں کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں ڈال دیا تھا۔
BIG NEWS – #Israel hitmen killed #AlQaeda No.3, Abu Muhammad al-Masri in #Tehran, on behalf of the U.S — he'd been in #Iran's custody since 2003.
Another considerable blow to AQ's legacy leadership, certain to accelerate its process of decentralization.https://t.co/h9TClLZOyf pic.twitter.com/iWEvaXegAv
— Charles Lister (@Charles_Lister) November 14, 2020