ہنوئی (ڈیلی اردو/وی او اے/ڈی ڈبلیو) ایشیا اور بحرالکاہل کے خطوں میں واقع 15 ملکوں نے ایک نیا علاقائی اقتصادی معاہدہ کیا ہے جسے چین کی حمایت میں بننے والا سب سے بڑا تجارتی ‘بلاک’ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے میں امریکہ شامل نہیں ہے۔ علاقائی تجارت کے فروغ کے لیے یہ معاہدہ طے پانے میں آٹھ سال لگے۔ توقع ہے کہ اس سے خطے کی 2.2 ارب آبادی مستفید ہو گی۔
معاہدے پر اتفاق جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کے ویت نام میں اتوار کو ہونے والے اجلاس کے دوران ہوا۔
دنیا میں ہونے والی ایک تہائی تجارتی سرگرمیاں معاہدے میں شامل رُکن ممالک کے ذریعے ہوتی ہیں۔
اس معاہدے کا نام ریجنل کمپری ہینسو اکنامک پارٹنرشپ (آر سی ای پی) یعنی علاقائی جامع معاشی شراکت داری رکھا گیا ہے۔ معاہدے پر دستخط ویت نام کے دارالحکومت ہنوئی میں ہونے والے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کے اجلاس کے دوران ہوئے۔
میزبان ملک ویت نام کے وزیراعظم گیوین شوان فوک نے کہا کہ آٹھ سال پر محیط محنت اور مذاکرات کے بعد اس معاہدے کے طے پانے پر اُنہیں دلی مسرت ہے۔
کرونا بحران کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ عالمی وبا کے باعث ہونے والے تجارتی خسارے سے نمٹنے کی کوششوں میں خطے کے ممالک کے لیے مددگار ثابت ہو گا۔
معاہدے میں چین، آسٹریلیا، جاپان، جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ سمیت خطے کے 10 ممالک شامل ہیں۔
چین کی حریف دنیا کی دو بڑی معیشتیں امریکا اور بھارت آزاد تجارت کے اس معاہدے کا حصہ نہیں۔
ویت نام کے وزیر اعظم نے کہا کہ اس معاہدے سے آزاد تجارت پر اتفاق رائے سے دنیا کو یہ واضح پیغام جائے گا کہ آسیان ممالک باہمی تجارت کے فروغ، نئے تجارتی ڈھانچے کی تشکیل اور کرونا وبا کے باعث درپیش معاشی مسائل کا مل کر مقابلہ کرنے میں برتری لے رہے ہیں۔
اس معاہدے کو پہلی بار 2012 مں تجویز کیا گیا تھا اور اس کے عمل میں آنے سے تجارتی محصولات میں کمی آنے اور خدمات کے شعبوں میں تجارت کو فروغ ملے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے چین کو اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔
بھارت میں مقامی انڈسٹری کو اس آزاد تجارتی بلاک کا حصہ بننے پر سخت تحفظات رہے ہیں، جس کے باعث حکومت نے خود کو اس معاہدے سے الگ کر لیا تھا۔
مثال کے طور پر بھارت کی زرعی لابی، دودھ اور گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کو خدشہ سے کہ اگر بھارتی منڈی کو ایشیا پیسیفک ممالک کے لیے کھول دیا گیا تو نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور چین جیسے ممالک کی سستی اور بہتر مصنوعات سے ان کا کاروبار برباد ہو جائے گا۔
ماہرین کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب صدر ٹرمپ کی قیادت میں امریکا عالمی تعاون کی بجائے یکطرفہ فیصلوں کو ترجیح دے رہا ہے، ایشیا میں تجارتی تعاون کے اس معاہدے کی اپنی اہمیت ہے۔
مبصرین کے مطابق چین کے لیے خاص طور پر یہ ایک بڑی کامیابی ہے کیونکہ امریکا کے برعکس اب بیجنگ عالمی سطح پر آزادانہ تجارت اور باہمی تعاون کی مثال بن کر ابھر رہا ہے۔ جاپان سمیت دیگر ممالک کو امید ہے کہ آگے جا کر بھارت بھی اس تجارتی بلاک کا حصہ بنے گا۔