نیپیدوا (ڈیلی اردو/وی او اے) میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی اور ان کی برسر اقتدار پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیمو کریسی نے ملک کے قومی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ انتخابات میں مسلم روہنگیا اقلیت کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
مبصرین کے مطابق انتخابات کے باوجود تنازعات اور بدامنی سے دوچار ملک میں جمہوری اصلاحات اور امن مذاکرات کا عمل بدستور سست روی کا شکار رہے گا۔
آٹھ نومبر کو ہونے والے انتخاب میں سوچی کی پارٹی نے 498 میں سے 396 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور یوں اُن کی جماعت 2015 کے انتخابات سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
گزشتہ انتخابات میں سوچی کی جماعت کو 385 نشستیں ملیں تھیں، میانمار میں حکومت سازی کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے 322 نشستیں درکار ہوتی ہیں۔
میانمار میں کئی دہائیوں سے فوجی حکمرانی کے بعد 2015 میں پارلیمانی انتخابات ہوئے تھے۔ تاہم ملک کے کئی حصوں میں فوج اور مسلح گروہوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔
ملک کے کئی حصوں میں بدامنی کے باعث 22 نشستوں پر الیکشن ملتوی کرنا پڑے جس سے 14 لاکھ سے زائد ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال نہ کر سکے جب کہ ہزاروں روہنگیا افراد کو بھی ووٹنگ میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔
خیال رہے کہ میانمار کی حکومت مسلم روہنگیا افراد کو اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی۔ تاہم روہنگیا افراد کا کہنا ہے کہ وہ نسل در نسل اس علاقے میں آباد ہیں۔
انتخابات پر نظر رکھنے والے امریکی ادارے ‘کارٹر سینٹر’ نے ان انتخابات میں لوگوں کو ووٹ کا حق نہ دینے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی کئی جگہوں پر انتخابات نہ ہونے اور روہنگیا اقلیت کو ووٹ کا حق نہ دینے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ الیکشن ملک کو جمہوریت کی طرف لے جانے کے لیے ایک قدم ہے۔
سوچی نے سالہا سال کی جدوجہد سے ایک جمہوریت پسند لیڈر ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ لیکن میانمار کی فوج کی جانب سے 2017 میں روہنگیا نسل کے لوگوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دفاع پر اُنہیں تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
روہنگیا نسل کے افراد کے خلاف مبینہ طور پر جنگی جرائم، قتل اور ریپ کے الزامات کے بعد لاکھوں روہنگیا ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔
میانمار کی آرمی نے اس آپریشن کا عسکریت پسندی کے خاتمے کے لئے ایک جائز اقدام ہونے کا دعوی کیا تھا جب کہ اقوامِ متحدہ نے اسے نسل کشی کی ایک واضح مثال قرار دیا تھا۔