آصف زرداری نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر مبارک باد دی، سابق امریکی صدر اوباما

واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) باراک اوباما نے اپنی کتاب ميں لکھا ہے کہ جب پاکستانی اعلیٰ قيادت کو اسامہ کی ہلاکت بارے ميں مطلع کيا گيا تو ملکی سالميت کی خلاف ورزی پر ناراضگی کے اظہار کی بجائے مبارک باد دی گئی اور تعاون کی يقين دہانی کرائی گئی۔

سابق امريکی صدر باراک اوباما کے مطابق پاکستانی شہر ايبٹ آباد ميں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ان کا خيال تھا کہ اس وقت پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کو اس بارے ميں ٹيلی فون پر مطلع کرنا ايک مشکل عمل ہوگا تاہم حقيقت اس سے برعکس رہی۔ زرداری نے تعاون کا مظاہرہ کيا اور اس کارروائی کو سراہا۔ اوباما نے يہ انکشاف اپنی کتاب ‘اے پرامسڈ لينڈ‘ ميں کيا، جس کی کچھ کاپياں گزشتہ روز چند پبلشرز کو جاری کی گئيں۔

اوباما کو يہ کال اس ليے مشکل لگ رہی تھی کيونکہ آپريشن کے بارے ميں پاکستانی حکام کو پيشگی اطلاع نہ دے کر پاکستان کی سالميت کا احترام نہ کيا گيا اور اس پر اوباما شديد رد عمل کی توقع کر رہے تھے۔ لیکن اس کے برعکس آصف علی زرداری نے انہيں اس آپريشن پر مبارک باد بھی دی۔ اوباما کے بقول صدر زرداری نے کہا کہ ‘آگے جو بھی ہو، يہ ايک بڑی خبر ہے‘۔

باراک اوباما کی کتاب ‘اے پرامسڈ لينڈ‘ ان کے دور اقتدار ميں پيش آنے والے کئی بڑے واقعات پر مبنی ہے۔ ان کی آپ بيتی پر مرتب يہ کتاب سات سو ايک صفحات پر مشتمل ہے۔ انہوں نے اس کتاب ميں اپنے بچپن کے دنوں کا بھی تذکرہ کيا مگر دور حکمرانی ميں عالمی اقتصادی بحران، مئی سن 2011 ميں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے باعث بننے والا آپريشن اور ديگر کئی بڑے واقعات کو خاصی تفصيل کے ساتھ بيان کيا گيا ہے۔

اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ادارہ برائے عالمی امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجم الدین کا ڈی ڈبلیو اردو سے بات چيت ميں کہنا تھا کہ يہ تاثر دينا کے اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنا آسان تھا، غلط ہے، ”اگر امريکا کو پاکستانی ڈاکٹر شکيل آفريدی کی مدد حاصل نہ ہوتی، تو شايد اسامہ آج بھی زندہ ہوتا۔‘‘

دفاعی تجريہ نگار طلعت مسعود کے مطابق اوباما نے کوئی نئی بات نہيں کی۔ انہوں نے ڈی ڈبليو اردو کو بتايا، ”يہ ضرور ثابت ہوا ہے کہ پاکستان کی قيادت کو واقعی اس آپريشن کا علم نہ تھا اور اس کی وجہ يہ ہے کہ امريکا کو شبہ تھا کہ پاکستان کی اسٹيبلشمنٹ اس بات کو ليک نہ کر دے۔‘‘

طلعت مسعود کے بقول مئی سن 2011 ميں اسامہ کی خفيہ آپريشن ميں ہلاکت کا معاملہ پاکستان کے ليے اس وقت بھی شرمندگی کا باعث بنا تھا اور اس وقت جب کہ اوباما نے اپنی کتاب ميں اس کا تذکرہ کيا، دوبارہ شرمندگی کا باعث بنے گا۔

جو بائيڈن نے آپريشن کی مخالفت کی تھی
دريں اثناء اوباما کی کتاب اس بات کا بھی تذکرہ ہے کہ امريکا کے اب نو منتخب صدر جو بائيڈن، جو اس وقت امريکی نائب صدر تھے، نے پاکستان ميں اس آپريشن کی مخالفت کی تھی۔ سابق امريکی سيکرٹری دفاع رابرٹ گيٹس نے بھی اس خفيہ آپريشن کی مخالفت کی تھی۔

دفاعی تجريہ نگار طلعت مسعود کے مطابق يہ انکشاف کہ جو بائيڈن اور رابرٹ گيٹس نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا سبب بننے والے آپريشن کی مخالفت کی تھی، اگر اليکشن سے قبل ہوتا، تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسے سياسی طور پر بائيڈن کے خلاف استعمال کر سکتے تھے۔

پاکستان ميں تجزيہ نگاروں کے مطابق سابق امريکی صدر انتہائی عقلمند شخص ہيں اور انہوں نے اپنی اس کتاب کے اجراء کا وقت بڑی چالاکی سے چنا تاکہ وہ انتخابات پر اثر انداز نہ ہو سکے۔

‘اے پرامسڈ لينڈ‘ ميں يہ بھی بتايا گيا ہے کہ اس وقت امريکی فوجی چيف مائیک مولن نے پاکستانی فوجی چيف جنرل اشفاق پرويز کيانی سے بھی گفتگو کی تھی۔ اس گفتگو ميں کيانی نے مولن سے درخواست کی تھی کہ آپريشن کی تمام تر تفصيلات پاکستانی فوج کو فراہم کی جائيں تاکہ پبلک رليشنز سے نمٹا جا سکے۔ انہوں نے اس پر زور ديا کہ پاکستان ميں آنے والے شديد رد عمل سے نمٹنے کے ليے تفصيلات ضروری تھيں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں