لاہور (ڈیلی اردو) مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی کورونا وائرس کے باعث انتقال کر گئے ہیں۔
فیملی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ خادم حسین رضوی کو گزشتہ چند روز سے بخار تھا اور وہ آج انتقال کرگئے ہیں۔ فیملی ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ خادم رضوی کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے۔
خیال رہے کہ خادم حسین رضوی نے گزشتہ دنوں فیض آباد میں ہونے والے تحریک لیبک پاکستان (ٹی ایل پی) کے دھرنے کی بھی قیادت کی تھی اور اسی دوران انہیں بخار ہوا تھا۔
طبعیت بگڑنے پر خادم حسین رضوی کو شیخ زاید ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کا انتقال ہوگیا۔
ہسپتال ذرائع کا کہنا ہے مولوی خادم حسین رضوی کو رات پونے 9 بجے کے قریب شیخ زید ہسپتال لایا گیا، خادم حسین رضوی ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی انتقال کرچکے تھے، خادم حسین رضوی کی موت کی تصدیق کیلئے ای سی جی بھی کی گئی، خادم رضوی کے ساتھ ہسپتال آنے والوں نے ان کی بیماری کی ہسٹری نہیں بتائی۔
جماعت کے ترجمان قاری زبیر نے غیر ملکی خبر رساں ادارے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان کے وفات کی وجہ فی الحال معلوم نہیں ہے۔ ان کے مطابق گذشتہ چند روز سے خادم رضوی کی طبیعت خراب تھی۔
لاہور میں شیخ زید ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر اکبر حسین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ رات 8 بج کر 48 منٹ پر خادم رضوی کو مردہ حالت میں ہسپتال کے ایمرجنسی وراڈ لیا گیا تھا اور اس سے قبل وہ یہاں زیر علاج نہیں تھے۔
ڈاکٹر اکبر حسین کے مطابق کسی کو مردہ حالت میں لائے جانے کی صورت میں ہسپتال موت کی وجہ کا تعین نہیں کر سکتا۔
تحریک لبیک کے ترجمان حمزہ کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کے سربراہ مولوی خادم حسین رضوی کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا اور گزشہ چند دنوں سے بخار تھا۔
انہوں نے کہا کہ خادم حسین رضوی ملتان روڈ پر اپنے مدرسے میں موجود تھے اور شام کے وقت ان کی طبیعت خراب ہوئی اور لاہور کے شیخ زید ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں کہا گیا کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کی میت رہائش گاہ منتقل کی جارہی ہے۔
تحریک لبیک یارسول اللہ کے سربراہ ڈاکٹر آصف جلالی نے خادم حسین رضوی کے انتقال کی تصدیق کی۔
چند روز قبل انھیں میڈیا پر اس وقت دیکھا گیا تھا جب ان کی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے کے لیے ریلی نکالی اور مظاہرے کے بعد فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا تھا۔
بعد ازاں پاکستان کی وفاقی حکومت اور انتظامیہ نے تحریک لبیک کے سربراہ کے ساتھ ’کامیاب مذاکرات‘ کیے اور چار نکاتی معاہدے پر اتفاق ہوا۔
مذاکرات کی کامیابی کے چند گھنٹوں بعد اس دھرنے کو ختم کر دیا گیا تھا۔
خادم رضوی کون تھے؟
مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک کے بانی خادم حسین رضوی کے بارے میں چند برس پہلے تک کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا۔ پھر نومبر 2017 میں انھوں نے ایک ریلی کی قیادت کرتے ہوئے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد پر دھرنا دیا۔ تین برس بعد نومبر 2020 میں ایک مرتبہ پھر ان کی جماعت کے کارکنوں نے اسی مقام پر دھرنا دیا ہے۔
بریلوی سوچ کے حامل خادم حسین رضوی کو ممتاز قادری کے حق میں کھل کر بولنے کی وجہ سے پنجاب کے محکمۂ اوقاف سے فارغ کر دیا گیا تھا جس کے بعد انھوں نے ستمبر 2017 میں تحریک کی بنیاد رکھی اور اسی برس ستمبر میں این اے 120 لاہور میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں سات ہزار ووٹ حاصل کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔
ویل چیئر تک محدود ہونے کے باوجود خادم حسین رضوی پاکستان میں توہین رسالت کے متنازع قانون کے ایک بڑے حامی بن کر سامنے آئے۔ وہ اس قانون کے غلط استعمال کے الزام سے بھی متفق نہیں۔
ان کا انداز بیان کافی سخت ہوتا ہے۔ پاکستانی میڈیا کی جانب سے کوریج نہ ملنے کا حل بظاہر انھوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کر کے نکالا۔ ناصرف اردو اور انگریزی میں ان کی ویب سائٹس بنائی گئیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی کئی اکاؤنٹ بنے۔
وہ اپنے آپ کو پیغمبر اسلام کا ‘چوکیدار’ کہہ کر بلاتے تھے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنے سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس فائز عیسی نے کہا تھا کہ ’اربوں کی پراپرٹی تباہ کردی گئی ہے اور ’پریمیئر‘ انٹیلی جنس ایجنسی کو معلوم ہی نہیں کہ خادم رضوی کیا کرتا ہے۔‘
محکمہ دفاع کے نمائندے کرنل فلک ناز نے عدالت کو بتایا تھا کہ خادم حسین رضوی خطیب ہیں اور ان کی سیاسی جماعت ہے جو چندے سے چلتی ہے۔
اسلام آباد میں انسداد دہشتگری عدالت نے فیض آباد دھرنا کیس میں ان کی گرفتاری کا حکم دیا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں وہ ضمانت پر رہا ہوگئے تھے۔