پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) پشاور ہائی کورٹ نے مشال خان قتل کیس میں مرکزی ملزم عمران علی کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ہے۔
جمعرات کو جسٹس لعل جان خٹک اور جسٹس عتیق شاہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے 25 ملزمان، جن کو ضمانت پر رہا کیا گیا تھا، کی ضمانت مسترد کر دی ہے، ان کی کمرۂ عدالت سے گرفتاری اور تین سال قید کی سزائیں برقرار رکھنے کا حکم جاری کیا ہے۔
سنہ 2017 میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کے طالبعلم مشال خان کو ایک مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں انتہائی تشدد کے بعد ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تحقیقات کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس الزام کو جھوٹا قرار دیا تھا۔
عدالت نے مرکزی ملزم عمران علی کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ہے جبکہ عمر قید کے دیگر ملزمان کی سزاؤں کو برقرار رکھا گیا ہے۔
پولیس نے فیصلے کے بعد کمرۂ عدالت میں موجود آٹھ ملزمان کو گرفتار کرلیا۔ یہ فیصلہ 30 ستمبر کو محفوظ کیا گیا تھا۔
مشال خان کے والد کا سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ
مشال خان کے والد اقبال خان نے فیصلے کے ردعمل میں کہا کہ وہ اس پر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔ ’قتل کے بعد قانونی جنگ میں نچلی عدالتوں نے کم سزائیں سنائی تھیں۔۔۔ اب ایک ملزم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا ہے۔۔۔ باقیوں کی عمر قید برقرار رکھی ہے۔‘
انھوں نے مطالبہ کیا کہ ریاست اور حکومت بھی اس کے خلاف اپیل دائر کرے۔ ’آنے والی نسلوں کے لیے یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ جب تک سخت سزائیں نہیں دی جائیں گی اسے روکا نہیں جاسکے گا۔‘
’میرا مشال خان دوبارہ زندہ نہیں ہوگا۔ ملک کے باقی لوگوں کی حفاظت ضرورت ہے۔‘
مشال خان قتل کیس
مشال خان مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کے طالبعلم تھے جنھیں سال 2017 میں مشتعل ہجوم نے انتہائی تشدد کے بعد ہلاک کر دیا گیا تھا۔
مشال خان کے قتل میں 61 افراد کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا تھا جن میں سے 57 ملزمان کو گرفتار کرکے سماعت شروع کر دی گئی تھی۔ ان میں زیادہ تر عبدالولی خان یونیورسٹی کے طلبہ اور یونیورسٹی کے ملازمین شامل تھے۔
مشال خان پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ توہین مذہب کے مرتکب ہوئے لیکن اس بارے میں قائم تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے مطابق ایسے کوئی شواہد نہیں ملے تھے۔
پولیس کی جانب سے مشال خان قتل کیس میں گرفتار 57 ملزمان میں سے عدالت نے مرکزی ملزم عمران کو سزائے موت، پانچ کو 25 سال قید جبکہ 25 ملزمان کو چار سال قید کی سزا سنائی تھی۔ جبکہ باقی 26 ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا۔
چار سال قید کی سزا پانے والے ملزمان کو پشاور ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔