بیجنگ + پیرس (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) چین نے مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیوں کہ انہوں نے اپنی ایک نئی کتاب میں چینی اقلیتی ایغور مسلمانوں کی مصیبتوں اور مسائل کا ذکر بھی کیا ہے۔
منگل کے دن چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پوپ فرانسس کی طرف سے ‘عائد کردہ الزامات بے بنیاد’ ہیں۔ روزانہ کی بریفنگ کے دوران ان کا مزید کہنا تھا، ”تمام نسلی گروہوں کو ترقی اور مذہبی اعتقاد کی مکمل آزادی حاصل ہے اور وہ اپنے حقوق سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔‘‘
تاہم چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ان کیمپوں کا ذکر بالکل نہیں کیا، جہاں دس لاکھ سے زائد ایغور مسلمانوں کو رکھا گیا ہے۔
پوپ فرانسس کی نئی کتاب ‘لیٹ ایس ڈریم‘ یکم دسمبر کو مارکیٹ میں آ رہی ہے اور اس کتاب میں انہوں نے ایغور مسلمانوں کو بطور مثال اس فہرست میں شامل کیا ہے، جن کو صرف ان کے عقیدے کی وجہ سے جبر و ستم کا سامنا ہے۔
اپنی اس کتاب میں پوپ فرانسس نے دنیا اور اس میں بسنے والے انسانوں کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا کہا ہے اور ان گروہوں کی بات کی ہے، جو کسی بھی معاشرے میں بطور اقلیت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پوپ فرانسس نے اپنی اس کتاب میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ داعش کے ہاتھوں جبر کا نشانہ بننے والی ایزدی برادری کا ذکر بھی کیا ہے۔ علاوہ ازیں ان مسیحیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے، جنہیں مصر اور پاکستان میں چرچ کے اندر عبادت کرتے ہوئے بم حملوں سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
چین اور ویٹی کن کے مابین متنازعہ معاہدہ
پوپ فرانسس نے ابھی تک براہ راست چین کو اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے حوالے سے کبھی اُس طرح تنقید کا نشانہ نہیں بنایا، جس طرح امریکا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بناتی آئی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ویٹی کن سٹی کا بیجنگ حکومت کے ساتھ وہ متنازعہ معاہدہ ہے، جو چین کے کیتھولک چرچ کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت فراہم کرتا ہے۔
ویٹی کن سٹی نے گزشتہ ماہ ہی چین کے ساتھ اس معاہدے کی دوبارہ توسیع کی ہے اور اس وجہ سے پوپ چین پر براہ راست تنقید کرنے کے حوالے سے انتہائی محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
چین اور ویٹی کن سٹی کے مابین باقاعدہ تعلقات سن 1949 سے نہیں ہیں۔ اس وقت کمیونسٹ پارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد تعلقات منقطع کرتے ہوئے پادریوں کو گرفتار کر لیا تھا۔