اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے تین گروپوں نے مشترکہ طور پر پاکستان میں جماعتِ احمدیہ کے ارکان کو ہدف بنا کر ہلاک کرنے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں فوری اقدامات کرے۔
ہیومن رائٹس واچ، ایمنیسٹی انٹرنیشنل اور انٹرنیشنل کمشن آف جیورسٹس کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکام نے طویل عرصے سے احمدیوں کے خلاف تشدد کو نظر انداز کیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپس کا یہ بھی کہنا ہے کہ بعض اوقات اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ پاکستانی قانون کے تحت احمدیوں کے مذہبی عقائد کی آزادی کا احترام نہیں کیا گیا۔
اس سال جولائی میں، احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والے ایک امریکی کو پشاور کی ایک عدالت میں توہینِ مذہب کے الزام پر قتل کر دیا گیا تھا۔ حملہ آور کو گرفتار تو کر لیا گیا تھا، لیکن اسے گرفتار کرنے والے سیکیورٹی اہلکاروں نے اس کے ساتھ سیلفیاں بنائی تھیں، اور چند ایک اپنی انگلیوں سے فتح کا نشان بنا رہے تھے۔
مقامی آبادی کے بہت سے افراد نے حملہ آور کو ایک ہیرو کا درجہ دیا اور اس کے خاندان والوں کو مبارک باد دینے ان کے گھر گئے۔ بہت سے وکلا نے اس کا مقدمہ مفت لڑنے کی پیشکش کی تھی۔
تب سے، مزید چار احمدیوں کو گولی مار کر قتل کیا گیا ہے۔
تازہ واقعہ پنجاب میں پیش آیا جہاں ایک نوجوان نے 31 سالہ ڈاکٹر طاہر محمود اور اس کے اہلِ خانہ پر اس وقت فائر کھول دیا تھا جب انہوں نے اپنے گھر کا دروازہ کھولا تھا۔ محمود ہلاک ہو گئے جب کہ ان کے والد اور دو چچا زخمی ہوئے۔ حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
جنوبی ایشیا کیلئے ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر، عمر وڑائچ کہتے ہیں کہ قتل کرنے کی حالیہ لہر نہ صرف ان سنگین خطرات کو اجاگر کرتی ہے، جو احمدیوں کو درپیش ہیں، بلکہ حکام کی لاتعلقی کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ کیونکہ وہ انہیں تحفظ فراہم کرنے اور حملہ آوروں کو سزا دینے میں ناکام رہے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کی پولیس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ حکام ان وارداتوں کی تفتیش کر رہے ہیں۔ اس صوبے میں پانچ میں سے چار قتل ہوئے ہیں۔
پولیس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ہم تمام زاویوں کو دیکھ رہے ہیں کہ کیا یہ مذہبی ایذا رسانی ہے یا ذاتی دشمنی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک دم کسی نتیجے پر نہیں پہنچنا چاہتے، کیونکہ یہاں مشدد تنازعات کی وجہ بالعموم ذاتی دشمنی ہوتی ہے۔
پولیس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے احمدی کمیونٹی سے ملاقات کی ہے اور انہیں یقین دلایا ہے کہ پولیس ان کی حفاظت کرے گی۔
انہوں نے کہا میں نے انہیں یہ بھی یقین دلایا ہے کہ اگر کسی کو خطرہ ہے تو پولیس انہیں ذاتی سیکیورٹی بھی فراہم کرے گی۔
پاکستان کی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی اِن ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کاروائی کر رہی ہے۔
وزیر اعظم کے مذہبی ہم آہنگی کے خصوصی ایلچی، طاہر اشرفی نے بھی قتل کیے جانے کے حالیہ واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان واقعات کی مکمل تفتیش کی جائے گی اور حملہ آوروں کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔
عمر وڑائچ کا کہنا ہے کہ یہ قتل، زیادہ تر احمدیوں کے خلاف نفرت پر مبنی تقریر و تحریر کا نتیجہ ہیں۔