ایران کا جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کے قتل میں ملوث افراد کی گرفتاری کا دعویٰ

تہران (ڈیلی اردو/بی بی سی) ایران کے ایک پارلیمانی مشیر نے کہا ہے کہ ایرانی سائنسدان محسن فخری زادہ کے قتل میں ملوث چند افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

حسین امیر عبداللهیان نے العالم ٹی وی کو بتایا کہ وہ سکیورٹی وجوہات پر تفصیلات تو شیئر نہیں کر سکتے لیکن اس قتل میں ملوث افراد انصاف سے نہیں بچ سکتے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل نے نہ تو ذمہ داری قبول کی ہے اور نہ ہی انکار کیا ہے۔

واضح رہے کہ ایران کے جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو 27 نومبر کو تہران سے باہر ایک مقام پر نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا تھا۔

ایران کے سرکاری عربی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں حسین امیرعبداللهیان نے کہا: ’ہمارے سکیورٹی نظام نے اس قتل میں ملوث کچھ افراد کی نشاندہی کی ہے اور انھیں حراست میں لیا گیا ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ، ان کی ذاتی رائے میں ’اس قتل کا منصوبہ بنانے اور اسے انجام دینے والوں کے بارے میں‘ متعدد ثبوت موجود تھے، جو اس میں صیہونیوں (اسرائیلیوں) کے ملوث ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔‘

’لیکن کیا صیہونیوں نے یہ کسی تعاون، مثال کے طور پر امریکی (انٹیلیجنس) سروس یا کسی اور خدمت کے تعاون کے بغیر کیا؟‘ تو انھوں نے مزید وضاحت کے بغیر کہا کہ ’یقینی طور پر، وہ خود تو ایسا نہیں کر سکتے تھے۔‘

اس سے قبل ایران میں پاسداران انقلاب کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل علی فداوی نے ایرانی میڈیا کو بتایا کہ ملک کے نامور جوہری سائنسدان کو مصنوعی ذہانت کے ساتھ ایک سیٹلائٹ کنٹرولڈ مشین گن کی مدد سے مارا گیا ہے۔

بریگیڈیئر جنرل علی فداوی نے ایرانی میڈیا کو بتایا کہ ایک پک اپ ٹرک میں رکھے ہتھیار سے فخری زادہ پر فائر کیا گیا جبکہ اس حملے میں ان کی بیوی کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ تاہم اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

تہران میں محسن فخری زادہ کے جنازے کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قومی سلامتی کے امور کے سربراہ علی شامخانی کا کہنا تھا کہ حملہ آور جائے وقوع پر موجود نہیں تھے اور انھوں نے حملے میں ’الیکٹرانک آلات استعمال‘ کیے تاہم علی شامخانی نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔

اس سے پہلے ایران کی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ جمعہ کو فخری زادہ کی گاڑی پر حملہ کئی بندوق بردار حملہ آوروں نے کیا تھا۔

ایران نے اس حملے کا الزام اسرائیل اور ایران سے باہر بیٹھے ایک گروپ پر عائد کیا ہے۔ اسرائیل نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور نہ ہی تصدیق کی ہے۔

یاد رہے کہ 2000 کے عشرے میں محسن فخری زادہ نے ایران کے جوہری پروگرام میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور اسرائیل کا الزام رہا ہے کہ حالیہ عرصے میں وہ خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے میں ایران کی مدد کر رہے تھے۔

ایران کا اصرار ہے کہ اس کی تمام جوہری سرگرمیاں پرامن مقاصد کے لیے ہیں۔

فخری زادہ کو کیسے قتل کیا گیا؟

محسن فخری زادہ کے دماوند کے علاقے ابسرد میں دوران سفر کار میں قتل سے متعلق ایرانی حکام نے متضاد بیانات دیے ہیں۔

حملے کے دن وزارت دفاع نے کہا تھا کہ فخری زادہ کی گاڑی پر حملہ کئی بندوق بردار حملہ آوروں نے کیا تھا، جس کے جواب میں فخری زادہ کے محافظوں نے بھی ان حملہ آوروں پر فائرنگ کی۔

ایک رپورٹ میں ایران نے ایک عینی شاہد سے متعلق یہ دعوی کیا تھا کہ اس حملے تین سے چار دہشتگرد مارے بھی گئے اور جائے وقوعہ پر ایک نسان پک اپ گاڑی بھی بم حملے سے پھٹ گئی تھی۔

پیر کو تہران میں محسن فخری زادہ کے جنازے کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قومی سلامتی کے امور کے سربراہ علی شامخانی کا کہنا تھا کہ حملہ آور جائے وقوع پر موجود نہیں تھے اور انھوں نے حملے میں ’الیکٹرانک آلات استعمال‘ کیے۔ علی شامخانی نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔

ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک ڈپٹی کمانڈر جنرل علی فداوی نے تہران میں ایک تقریب میں بتایا تھا کہ ملک کے نامور سائنسدان کو مصنوعی ذہانت کے ساتھ ایک سیٹلائٹ کنٹرولڈ مشین گن کی مدد سے مارا گیا ہے۔

بریگیڈیئر جنرل جنرل علی فداوی نے ایرانی میڈیا کو بتایا کہ ایک نسان پک اپ ٹرک میں رکھے ہتھیار (ذہانت والے سیٹلائٹ سسٹم سے مسلحہ) سے فخری زادہ پر فائر کیا گیا جبکہ اس حملے میں ان کی بیوی کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ انھوں نے اس حملے میں مصنوعی ذہانت کا ذکر کیا۔

ان کے مطابق فخری زادہ کے چہرے کو فوکس کر کے مشین گن اس طرح تانی گئی تھی کہ اس حملے میں ان کی اہلیہ نہ ماری جائیں اس کے باوجود کے وہ صرف اپنے خاوند سے بمشکل ایک فٹ (25 سینٹی میٹرز) کی دوری پر تھیں۔

ان کے مطابق اس حملے میں کوئی انسانی حملہ آور ملوث نہیں تھا بلکہ تمام 13 گولیاں ایک نسان پک اپ میں رکھے ایک ہتھیار سے فائر کی گئیں۔

ان کے مطابق چار گولیاں فخری زادہ کے محافظ کے سر پر لگیں جب انھوں نے سائنسدان کو بچانے کے لیے ان پر اپنے آپ کو گرا دیا۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی نے ایرانی جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کے قتل کا بدلہ لینے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو اس قتل کے پیچھے ہیں ان کو کڑی سزا دی جائے گی۔

جمے کو ایک اسرائیل کے ایک ریڈیو کے مطابق اسرائیلی حکام نے اپنے کچھ سابقہ جوہری سائنسدانوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی ہے۔

ماہرین دیمونا ریکٹر پر کام کرتے ہیں جو ایک انتہائی خفیہ جگہ نیجو صحرا پر واقع ہے۔

اسرائیل کی حکومت نے اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے جو اس ہدایت کے ایک دن بعد سامنے آئی جس میں اسرائیل کی دفتر خارجہ نے اپنے شہریوں کو مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کی طرف سفر کرتے ہوئے محتاط رہنے کا کہا ہے۔ ان کے مطابق انھیں ایرانی عناصر کی طرف سے خطرہ ہو سکتا ہے۔

اس حملے میں انتہائی اعلیٰ درجے کے ٹیکنالوجی والے ہتھیار استعمال ہونے کے دعوے کیے گئے ہیں اور یہ بے رحمانہ ہتھیاروں کی طرح انتہائی خطرناک ہتھیار ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ ان دعوؤں کی کسی نے تصدیق نہیں لگائی۔

جنگ کے دوران مصنوعی ذہانت والے ہتھیاروں کا استعمال نے کئی سائنسدانوں کو پریشانی کیے رکھا۔ سنہ 2015 میں پروفیسر سٹیفن ہاکنگ ان ہزار سائنسدانوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے جنگی مقاصد کے لیے ان مصنوعی ذہانت کے ہتھیار بنانے پر پابندی کے مطالبے سے متعلق ایک کھلے خط پر دستخط کیے تھے۔

تاہم اس حوالے سے ایران کے ان دعوؤں کو شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔

تجزیہ کار ٹام وتھنگٹن جو الیکٹرونک وارفیئر امور پر مہارت رکھتے ہیں، انکا کہنا ہے کہ ان رپورٹس کو مثبت انداز میں دیکھنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ اس واقعے کو ایران نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے جیسے یہ تو صرف کوئی انتہائی طاقت ہی ایسے مشن میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

قاتل روبوٹس کے خلاف مہم چلانے والے پروفیسر نوئیل شارکے کا کہنا ہے کہ افواج کی طرف سے ایسے ہتھیاروں تک رسائی کے ناقابل تصور نتائج نکل سکتے ہیں۔

ان کے مطابق اگر یہ ہتھیار اتنے ہی خود کار ہیں جو چہرے کی شناخت کر کے کسی کو جان سے مار سکتے ہیں تو پھر یہ عالمی سیکورٹی کے نظام کو تباہ کر سکتے ہیں۔

سائنسدان ہی نشانہ کیوں؟

محسن فخری زادہ ایران کی آرگنائزیشن آف ڈیفینسو انوویشن اینڈ ریسرچ کے سربراہ تھے، جسے ایس پی این ڈی کے مخفف سے جانا جاتا ہے۔

اسرائیلی اور مغربی سیکورٹی ذرائع کے مطابق فخری زادہ ایران کے جوہری پروگرام میں کلیدی حیثیت رکھتے تھے۔

ان کے خیال میں فزکس کے پروفیسر کی سربراہی میں ’پروجیکٹ اماد‘ وہ خفیہ پروگرام تھا جسے مبینہ طور پر ایران نے نیوکلیئر بم پر تحقیق کے لیے 1989 میں قائم کیا تھا۔

جوہری ہتھیاروں کی نگرانی کرنے والے عالمی ادارے انٹرینشل اٹامک انرجی ایجسنی آئی اے ای اے کے مطابق یہ پروگرام 2003 میں بند کر دیا گیا تھا۔

تاہم 2018 میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے کہا تھا انھیں ایسی دستاویزات حاصل ہوئی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کے سائنسدان فخری زادہ اس خفیہ منصوبے اماد پر کام جاری رکھے ہوئے تھے۔

ایران کا یہ اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور جوہری ہتھیار کا حصول اس کی کبھی خواہش نہیں رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کے اندازوں کے مطابق فخری زادہ کے قتل کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنا نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد اس امکان کو ختم کرنا تھا کہ امریکہ پھر سے ایران کے ساتھ 2015 والی ڈیل بحال کر دے جب امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن اگلے سال امریکہ کا اقتدار سنبھالیں گے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں