لاہور (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسی) لاہور ہائیکورٹ نے توہین آمیز مواد کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ کیسی ریاست مدینہ ہیں کہ بنیادی ذمہ داری ہی پوری نہیں کر رہے۔
لاہور ہائیکورٹ میں انٹرنیٹ سے توہین آمیز مواد ہٹانے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ ڈی جی ایف آئی اے سمیت دیگر افسران ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔
وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ مواد ہٹانے کے معاملے پر ایف آئی اے نے ہی کارروائی کرنی ہے، ایف آئی اے نے قانون کے مطابق کمپلینٹ بنائی ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ دن بدن معاملہ خراب ہو رہا ہے، اگر کوئی بیرون ملک بیٹھ کر توہین آمیز مواد پاکستان میں پھیلائے تو ایف آئی اے کیا کرے گا، ملک میں جتنے قوانین ہیں کیا ان کو لاگو کرنا حکومت کا کام نہیں ہے، ہم کیسی ریاست مدینہ ہیں کہ بنیادی ذمہ داری ہی پوری نہیں کر رہے، ایف آئی اے میں ایسا ونگ ضرور ہونا چاہیے جو توہین آمیز مواد چیک کرے اور اسے ہٹائے، حکومت سارے توہین آمیز مواد کو ہٹا دے یا سسٹم بند کر دے، یا حکومت کھل کر بیان دے کہ کچھ نہیں کرنا، ایف آئی اے نے بھی رپورٹ جمع کراکر جان ہی چھڑائی ہے، کیا گوگل اتھارٹی کے خلاف پرچہ ہو سکتا ہے، اگر ایف آئی اے کے پاس اختیار ہے تو گوگل کے خلاف پرچہ درج کرے۔
لاہور ہائیکورٹ نے 30 دسمبر کو ڈی جی ایف آئی اے سمیت دیگر افسران کو ملتان بنچ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔