اسلام آباد + کرک (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کی سپریم کورٹ نے کرک میں مشتعل ہجوم کی جانب سے مندر پر کیے جانے والے حملے کا نوٹس لے لیا ہے جب کہ اس واقعے کی ایف آئی آر درج کر دی گئی ہے اور پولیس نے 28 افراد کو گرفتار کیا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کی تحصیل بانڈہ داؤد شاہ کے علاقے ٹیری میں مشتعل مظاہرین نے ہندوؤں کے مقدس مقام میں ایک سمادھی کی توسیع کے خلاف ہلہ بول کر مندر کی توسیع کو روک دیا تھا۔ اس موقع پر مظاہرین نے مندر میں توڑ پھوڑ بھی کی۔
پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے جمعرات کو جاری تحریری پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ سپریم کورٹ پانچ جنوری کو اس نوٹس کی سماعت کرے گی۔
پاکستان ہندو کونسل نے یہ بات پاکستان کے چیف جسٹس نے پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ اور ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار سے ملاقات میں بتائی۔
چیف جسٹس نے اس واقعے پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور انھیں بتایا کہ وہ پہلے ہی اس واقعے کا نوٹس لے چکے ہیں اور عدالت آئندہ منگل کو اس کی سماعت کرے گی۔
انھوں نے بتایا کہ اقلیتوں کے حقوق کے ایک رکنی کمیشن کی ہدایات کے تحت چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا اورانسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا جائے وقوعہ کا دورہ کریں گے اور پیر تک اس کی رپورٹ جمع کروائیں گے۔
دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج
ضلع کرک میں پولیس نے ہندوؤں کے مندر پر حملے کی ایف آئی آر درج کر لی ہے جس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل ہیں۔ پولیس نے اس واقعے میں ملوث 28 افراد کو حراست میں لے لیا ہے جبکہ مندر کے پاس پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق اس ایف آئی آر میں کرک کے علاقے ارمڑ کے رہائشی مولانا محمد شریف اور کرک کے قریب واقع علاقہ ٹیری کے مولانا حافظ فیض اللہ کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ 300 سے 400 نا معلوم افراد شامل ہیں۔
پولیس رپورٹ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 7 اے ٹی اے اور دیگر دفعات درج ہیں۔ اس رپورٹ میں جمعیت علمائے اسلام کے دیگر رہنماؤں کا ذکر ہے جن میں کچھ عرصہ قبل پاکستان مسلم لیگ نواز کو چھوڑ کو جمعیت علمائے اسلام میں شمولیت اختیار کرنے والے رہنما رحمت سلام خٹک کا ذکر بھی ہے۔
مقامی تھانے کے پولیس انسپکٹر رحمت اللہ خان نے بتایا کہ رحمت سلام خٹک کو گرفتار کر لیا گیا ہے جب کے مزید افراد کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
جمعے کے خطبے میں سمادھی کو مسمار’ کرنے کی ترعیب
پولیس رپورٹ کے مطابق جمعے کے روز تقریر کے دوران مولانا محمد شریف نے خطاب میں کہا کہ وہ ٹیری کی سرزمین پر ہندوؤں کی سمادھی کو قائم رکھنا تسلیم نہیں کرتے اور ناں ہی ہندو کمیونٹی کی آمد ورفت مزید برداشت کر سکتے ہیں۔
جس وقت یہ خطبہ جاری تھا اس وقت موقع پر پولیس کے مطابق 1000 سے 1500 افراد موجود تھے۔
پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’مولانا شریف نے تقریر میں لوگوں سے کہا کہ جاؤ اور اس سمادھی کو مکمل طور پر مسمار کر دو اور اس میں اگر کوئی مسلمان قتل ہوا تو وہ شہید کہلائے گا۔
پولیس کے مطابق اس اشتعال انگیز تقریر کے بعد لوگ روانہ ہوئے اور سمادی پر حملہ کر دیا۔
پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ چند روز پہلے مقامی سطح پر 30 دسمبر بروز جمعہ ایک احتجاج کا فیصلہ ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ احتجاج پر امن ہوگا لیکن بعد ازاں اس میں لوگوں کو مشتعل کیا گیا جس کے بعد سمادھی پر حملہ ہوا ہے۔
اس سمادھی کی توسیع کا منصوبہ تھا اور اس کے لیے عدالت نے اجازت دے رکھی تھی اور مقامی سطح پر اس بارے میں معاہدہ بھی طے ہو چکا تھا جس کے تحت ہندو کمیونٹی نے جو مکانات خریدے ہیں وہ اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں اور راستہ بھی استعمال کریں گے لیکن سمادھی میں ان کی آواز اس عمارت کے اندر تک محدود رہے گی۔
مقامی سطح پر ایسی اطلاعات ہیں کہ بعض مذہبی رہنما اس معاہدے سے متفق نہیں ہوئے تھے جس وجہ سے کشیدگی بڑھ گئی تھی۔
پولیس نے اس واقعہ کے بعد 26 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
مقامی پولیس تھانے کے انسپکٹر رحمت اللہ خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس واقعہ میں ملوث مزید افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں اور علاقے میں سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
گرفتار افراد میں رحمت سلام خٹک شامل ہیں لیکن اب تک مولوی محمد شریف اور مولانا حافظ فیض اللہ کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔
سمادھی قیام پاکستان سے بھی پہلے قائم ہوئی تھی
پشاور میں موجودہ ہندو سکالر اور فیتھ ٹورازم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہارون سرب دیال نے بتایا کہ ’یہ سمادھی ہمارے یوگی بزرگوں کی یاد میں قیامِ پاکستان سے پہلے سے یہاں ہے’۔
انھوں نے بتایا کہ کرک کے اس علاقے میں ‘ہمارے یوگی تارکِ دنیا ہو کر یہاں یوگ ابیساس یعنی جوگ لینا اور مراقبہ کرتے تھے۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘قیام پاکستان سے پہلے ہی ہمارے کئی یوگی بزرگ اس مقام پر اپنی عبادت اور ہندو مذہب کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ جس میں سندھ کے ایک بزرگ کرشن دوارا بھی ریاضت اور جوگ کیا کرتے تھے’۔
ان کے مطابق ‘قیامِ پاکستان کے بعد اس علاقے سے آہستہ آہستہ تمام ہندو برادری منتقل ہو گئی۔ لیکن سندھ سے ہمارے کرشن دوارا کو چاہنے والے ہندو بھائی ہر جمعرات کو عبادات و زیارت کے لیے اس مقام پر حاضری دیتے ہیں۔’
ارون سرب دیال کے مطابق یہ علاقہ ایک مذہبی ٹورازم کی حیثیت بھی اختیار کرتا جا رہا تھا۔
ان کے مطابق ‘جب بڑی تعداد میں ہندوؤں نے آنا شروع کیا تو ہماری برادری نے حکومت کی اجازت کے ساتھ سمادھی کی توسیع کا منصوبہ بنایا تھا۔’
پاکستان ہندو کونسل کے مطابق یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ اس سمادھی میں توڑ پھوڑ ہوئی ہے۔ ہندو مذہب سے مسلمان ہونے والے ایک مقامی عالم دین نے اس سے قبل سنہ 1997 میں بھی اس مندر میں توڑ پھوڑ کی تھی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس سمادھی کی دوبارہ تعمیر شروع کی گئی تھی۔
پاکستان ہندو کونسل کے چیئرمین کے مطابق سپریم کورٹ نے سنہ 2014 میں مندر کی تعمیر سے متعلق فیصلہ دیا تھا اور اس کی تعمیر کا آغاز سنہ 2016 میں ہوا تھا۔ ہندو کونسل کے مطابق قیام پاکستان سے قبل اس علاقے میں ہندوؤں کی اکثریت ہوتی تھی۔