اسلام آباد (ڈیلی اردو رپورٹ) صوبہ بلوچستان کے ضلع بولان کی تحصیل مچھ میں ذبح ہونے والے گیارہ ہزارہ کان کنوں میں تعمیر نو کالج کوئٹہ کے احمد شاہ ہزارہ بھی شامل تھے جنہوں نے بلوچستان بھر میں 1053 نمبر لیکر تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ 18 سالہ احمد شاہ سیکنڈ ایئر کا طالب علم تھا جو چھٹیوں کے دوران محنت مزدوری کرنے گیا تھا۔
واضح رہے کہ احمد شاہ ہزارہ تعلیم کے ساتھ ساتھ محنت مزدوری کرکے اپنی تعلیمی اخراجات خود پورے کرتے تھے۔
آمنہ بی بی نے نجی ٹی وی سما نیوز کو بتایا کہ کورونا وائرس کے باعث تعلیمی ادارے بند ہوئے تو بیٹے نے کہا کہ وہ چھٹیوں کے دوران دو چار پیسے کمانے مزدوری کرنے جارہا ہے تاکہ وہ آگے تعلیم جاری رکھ سکے مگر دہشت گردوں نے اس کی گردن کاٹ دی۔
آمنہ یعقوب کا ایک بیٹا، دو نواسے اور ایک بھائی بھی اس سانحہ کا شکار ہوئے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک بار کوئٹہ آکر ان جنازوں کو جاکر دیکھیں کہ کس بے دردی سے ان کو جانوروں کی طرح ذبح کردیا گیا ہے۔
احمد شاہ کی ہمشیرہ معصومہ ہزارہ نے کہا کہ 20 سال کے دوران کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے خلاف جتنی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ ہوئی، آج تک ایک بھی قاتل یا ملزم گرفتار نہیں ہوا۔ حکومتی نمائندے آکر باتیں کرکے چلے جاتے ہیں۔
معصومہ ہزارہ نے برطانوی خبر رساں ایجنسی بی بی سی کو بتایا کہ ’اگر کسی کو کربلا کا منظر دیکھنا ہے تو وہ میرے خاندان کو دیکھ لے۔ ہمارے خاندان میں جنازہ اٹھانے والا کوئی مرد نہیں بچا۔ جس کے بعد ہم چھ بہنوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے بھائی اور اپنے رشتہ داروں کے جنازے خود اٹھائیں گے۔‘
ان پانچ افراد کی میتوں سمیت دھرنے میں شامل معصومہ یعقوب علی نے بی بی سی کو مزید بتایا کہ ان کے اکلوتے بھائی سمیت ان کے خاندان کے پانچ افراد کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
معصومہ کا بھائی چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی اور دو بچوں کے والد تھے۔ جبکہ ان کے دیگر ہلاک ہونے والے رشتہ داروں میں اٹھارہ سالہ بھانجا احمد شاہ، دو ماموں 20 سالہ شیر محمد اور 30 سالہ محمد انوار اور ان کی خالہ کا بیٹا محمد احسن شامل ہیں۔
معصومہ تھرڈ ایئر کی طالبہ ہیں۔ ’میں ریاست مدینہ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ یہ کیسی ریاست مدینہ ہے جس میں دن دہاڑے بے گناہ خاندانوں کے سہاروں کو اس بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے اور اس کے بعد صرف میڈیا پر تعزیتی بیانات کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے۔‘
’میں کہتی ہوں کہ اگر یہ واقعی انصاف کی ریاست ہے۔۔۔ اگر یہ واقعی مسلمانوں کی ریاست ہے۔۔۔ اگر یہ واقعی ریاست مدینہ ہے تو ہمارے مجرموں کو فی الفور قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ انھیں سامنے لایا جائے۔ آخر ہم کب تک اپنے لوگوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔‘
تین روز قبل مچھ کے علاقے گیشتری میں شیعہ ہزارہ برادری کے 11 کان کنوں کی ہلاکت کے واقعے کے بعد لواحقین نے کوئٹہ میں مغربی بائی پاس کے مقام پر احتجاجی دھرنا دیتے ہوئے قاتلوں کی گرفتاری تک تدفین نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی خصوصی ہدایت پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سانحہ مچھ میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین اور دھرنا دینے والے احتجاجی مظاہرین سے بات چیت کے لیے کوئٹہ پہنچے ہیں۔
کوئٹہ آمد کے بعد عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ سانحہ مچھ ظلم و زیادتی ہے اور اس ساںحے پر شرمندہ ہوں۔
ذرائع کے مطاق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے مظاہرین کو بتایا کہ وزیراعظم نے پیغام دیا ہے کہ کسی بھی صورت میں سانحہ مچھ کے مجرمان کو نہیں چھوڑا جائے گا۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اس موقع پر دہشت گردی کا نشانہ بننے والے افراد کے لواحقین کے لیے فی کس 25 لاکھ روپے کی امداد کا بھی اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں وفاقی حکومت کی جانب سے دس لاکھ روپے اور بلوچستان حکومت کی جانب سے 15 لاکھ روپے متاثرہ خاندانوں کو فی کس ادا کیے جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی آمد پر ہزار برادری کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ وزیراعظم عمران خان شرکا سے بات چیت کے لیے خود آئیں۔ احتجاجی مظاہرین نے دھرنا ختم کرنے اور ہلاک ہونے والے افراد کی میتوں کی تدفین سے بھی انکار کردیا ہے۔
ہزارہ برادری کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے علاہ کسی دوسرے سے مذاکرات نہیں کریں گے۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اور سانحہ مچھ کے لواحقین کے درمیان ہونے والے مذاکرات اس لحاظ سے ناکام ہو گئے ہیں کہ شیعہ ہزارہ برادری نے وزیر داخلہ کی یقین دہانیوں پر دھرنا ختم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
احتجاجی دھرنے میں موجود مظاہرین نے واضح طور پر کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے آنے تک دھرنا جاری رکھا جائے گا۔
سانحہ مچھ میں ہلاک ہونے والے افراد کی میتوں کو گزشتہ روز سے سخت سردی میں سڑک پہ رکھ کر لواحقین اور شیعہ ہزارہ برادری کے افراد احتجاج کررہے ہیں۔
دوسری جانب شیعہ تنظیم ‘مجلس وحدتِ مسلمین’ بھی دھرنے میں شامل ہو گئی ہے۔ مظاہرین نے میتیں بھی سڑک پر رکھی ہوئی ہیں اور شدید سرد موسم میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) بلوچستان نے کان کنوں کے قتل کا مقدمہ زیرِ دفعہ 224 اور 302 انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کر لیا ہے۔
خیال رہے کہ مچھ کے علاقے گیشتری کی کوئٹہ کوئلہ فیلڈ میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب دہشت گردوں نے کئی مزدوروں کو اغوا کر لیا تھا۔ حکام کے مطابق شناخت کے بعد بلوچستان کی شیعہ ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 11 کان کنوں کو بے دردی سے (ذبح) قتل کر دیا گیا تھا۔
مقامی باوثوق ذرائع کے مطابق کانکنوں کو انکے اپنے ہی کمروں میں ہاتھ باندھ کر بے دردی سے ذبح کیا گیا یے۔
عینی شاہدین کے مطابق مسلح افراد نے شناختی کارڈز اور شکل و صورت سے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو پہلے الگ کیا پھر انہیں اللہ و اکبر اور کافر کافر شیعہ کافر کے نعرے لگاتے ہوئے ذبح کرتے گئے۔
‘مجلس وحدتِ مسلمین’ نے کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ میتوں کی تدفین اس وقت تک نہیں ہو گی جب تک وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن تشکیل نہیں دیا جاتا۔
دوسری جانب شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) نے واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
تنظیم کے زیرِ اثر نیوز ایجنسی ‘عماق’ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دولت اسلامیہ کے اراکین نے ہزارہ برادری کے 11 کان کنوں کو ہلاک کیا۔
ادھر کوئٹہ میں سخت سردی کے باوجود لواحقین اور ہزارہ کمیونٹی کے لوگ کھلے آسمان تلے دھرنا دیے ہوئے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
دھرنے کے باعث معربی بائی پاس قومی شاہراہ دونوں اطراف سے ٹریفک کے لیے گزشتہ روز سے مکمل بند ہے۔
اس سے قبل ہزارہ قومی جرگہ نے پیر کو میتیں دفنانے کا اعلان کیا تھا تاہم لواحقین نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا۔
گزشتہ روز واقعے کے بعد لواحقین نے ہلاک ہونے والے مزدوروں کی میتوں کے ہمراہ بلوچستان اور سندھ کو ملانے والی قومی شاہراہ پر مچھ کے مقام پر دھرنا دیا تھا۔
بعدازاں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے رکنِ صوبائی اسمبلی قادر نائل سے کامیاب مذاکرات کے بعد میتوں کو کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن کے ولی العصر امام بارگاہ پہنچایا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے دہشتگردی کے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں اور پاکستان کی حکومت سے گہرے دکھ اور دلی ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
سیکرٹری جنرل کے ترجمان کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ پاکستانی حکام کانک کنوں کے قتل میں ملوث دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی مچھ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو حکم دیا تھا کہ واقعے میں ملوث ملزمان کو فوری گرفتار کیا جائے۔
بلوچستان کے علاقے مچھ میں کوئلے کے 11 معصوم کان کنوں کا قابل مذمت قتل انسانیت سوز بزدلانہ دہشگردی کا ایک اور واقعہ ہے۔ ایف سی کو حکم دیا گیا ہے کہ تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے قاتل گرفتار اور انصاف کے کٹہرے میں کھڑے کئے جائیں۔ حکومت متاثرہ خاندانوں کو بالکل تنہا نہیں چھوڑے گی۔
مچھ, بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 70 کلو میٹر کے فاصلے پر بولان کے پہاڑی سلسلوں میں واقع ہے۔ یہاں کوئلے کی کانوں کے علاوہ قدیم کوئلہ ڈپو بھی ہے۔ جہاں ملک بھر سے کان کن کام کی غرض سے آتے ہیں۔