کوئٹہ (ڈیلی اردو) وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی زیر صدارت امن وامان کی صورتحال سے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاس جمعرات کے منعقد ہوا۔ اجلاس میں صوبائی وزیرداخلہ میر ضیاء اللہ لانگو، صوبائی مشیر محنت و افرادی قوت حاجی محمد خان لہڑی، صوبائی مشیر کھیل و ثقافت عبدالخالق ہزارہ، پارلیمانی سیکرٹری محترمہ بشریٰ رند، چیف سیکرٹری بلوچستان کیپٹن (ر) فضیل اصغر، سیکرٹری لیبر محترمہ سائرہ عطاء، کمشنر کوئٹہ ڈیژن اسفند یار کاکڑ، ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ سید زاہد شاہ سمیت دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔
اجلاس میں چیف سیکرٹری بلوچستان نے سانحہ مچھ کے خلاف دیئے گئے دھرنے اور صوبے میں امن وامان کی مجموعی صورتحال سے متعلق تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ صوبے بھر میں عوام کے جا ن و مال کے تحفظ کیلئے سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کیلئے موثر اقدامات کئے جارہے ہیں۔
اجلاس کو محکمہ معدنیات اور مختلف افرادی قوت کے حکام نے کول فیلڈ میں کام کرنے والے مزدوروں کی رجسٹریشن اور سیفٹی سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات کے حوالے سے بھی آگاہ کیا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے مچھ میں پیش آنے والے اندوہناک واقعہ پر سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کچھی مراد خان کاسی اور ڈی پی او پولیس سردار حسن موسیٰ خیل کو فوری طور پر عہدے سے ہٹانے کی ہدایت کی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا مناسب ڈیٹا مرتب نہ کرنے اور ناقص حفاظتی انتظامات پربھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کول فیلڈ میں کام کرنے والے مزدوروں کا ڈیٹا فوری مرتب کرنے اور لیبر قوانین پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کی ہدایت کی۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ تمام کوئلہ کانوں میں سیفٹی انتظامات کیلئے اقدامات اٹھانے اور سہولیات یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ تمام کول فیلڈ سائٹس کا معائنہ کرکے حفاظتی انتظامات کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔
اجلاس میں سانحہ مچھ میں غفلت برتنے والے محکموں کے خلاف تحقیقات کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے فوری جوائنٹ انویسٹی گیشن کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے بھر میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کو یقینی بنانے کیلئے تمام دستیاب سائل کو بروئے کار لایا جائے، عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے جامع حکمت عملی کے تحت اقدامات اٹھا ئے جائیں۔
واضح رہے کہ بلوچستان کے ضلع بولان کی تحصیل مچھ کے علاقے گشتری میں 2 اور 3 جنوری کی درمیانی شب داعش کے دہشت گردوں نے کوئلے کی کان میں کام کرنے والے شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو اغوا کر کے پہلے پہاڑوں پر لے گئے اور پھر ان کو ذبح کر دیا گیا تھا، واقعے میں 11 مزدور ہلاک اور 6 زخمی ہوئے تھے۔