کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) وفاقی حکومت اور کوئٹہ میں دھرنا دینے والے ہزارہ برادری کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں جس کے بعد انھوں نے دھرنا ختم کرنے اور مقتولین کی تدفین کا اعلان کیا ہے۔
خیال رہے کہ مچھ میں شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کان کنوں کے قتل کے خلاف احتجاجی دھرنا کوئٹہ کے مغربی بائی پاس کے علاقے میں چھ روز قبل شروع ہوا تھا۔
بی بی سی کے مطابق حکومت سے کامیاب مذاکرات کے بعد ہلاک ہونے والے کان کنوں کی لاشوں کو دھرنے کے مقام سے ہزارہ ٹائون منتقل کیا گیا۔ میتوں کی تدفین سینیچر کو صبح دس بجے ہزارہ ٹاؤن قبرستان میں کی جائے گی۔
جمعے کی شب وفاقی حکومت کے وزرا اور وزیراعلیٰ بلوچستان نے دھرنے کے منتظیمن سے ایک بار پھر مذاکرات کیے جس کے بعد دھرنے کے منتظیمن پر مشتمل شہدا کمیٹی نے اعلان کیا کہ ان کے تمام مطالبات مان لیے گئے ہیں اور اس سے متعلق نوٹیفکیشنز پر دستخط کر دیے گئے ہیں۔
قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے دھرنے کے مقام پر گفتگو میں بتایا کہ جیسے ہی مقتولین کی تدفین ہو گی وزیراعظم کوئٹہ کے لیے روانہ ہوں گے اور آرمی چیف بھی کوئٹہ جائیں گے اور لواحقین سے تعزیت کریں گے۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ میتوں کی تدفین پر رضامندی کا اظہار کیا گیا ہے اور اب وزیراعظم کوئٹہ جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف ابھی بحرین سے ملک واپس پہنچے ہیں وہ ابھی وزیراعظم کے ہمراہ جائیں گے یا نہیں انھیں معلوم نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ وزیراعظم آج یا کل کوئٹہ جائیں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ دیر تو ہو گی ہے کہ اچھی بات ہے کہ معاملات خوش اسلوبی سے طے ہو گیا ہے اور اس کا کریڈٹ دھرنا دینے والوں کو جاتا ہے۔
وفاقی وزیر علی زیدی نے میڈیا سے گفتگو میں ہزارہ برادری کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات کے بارے میں آگاہ کیا۔
انھوں نے بتایا کہ ہزارہ متاثرین کی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ بات چیت میں مچھ واقعے کے حوالے سے جے آئی ٹیم کی تشکیل کا مطالبہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اس واقعے کے ذمہ داران کا تعین کیے جانے کے مطالبے کو بھی تسلیم کیا گیا۔
علی زیدی کا کہنا تھا کہ ایک اعلیٰ سطحی کمیشن بنایا گیا ہے۔ ضیا اللہ اس کی سربراہی کریں گے اسمبلی اور حکومت کے سینئر افسران اور ڈی آئی جی رینک کا پولیس افسر ہو گا اور شہدا کمیٹی کے دو اراکین بھی ہوں گے یہ کمیٹی مہینے میں ایک مرتبہ ضرور ملے گی اور جو بھی تحقیقات ہو رہی ہیں انھیں مانیٹر کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام فیصلے لوگوں کی مشاورت سے ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے حوالے سے سکیورٹی پلان پر نظرثانی کی جائے گی۔
وفاقی وزیر کے مطابق مچھ واقعے میں قتل ہونے والوں کے لواحقین میں سے جو بھی طالب علم ہیں ان کے لیے سکالر شپ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے جام کمال نے کہا کہ وہ شکرگزار ہیں کہ لواحقین نے میتوں کی تدفین کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اسے دھرنا نہیں کہیں گے کیونکہ ہزارہ برادری نے اپنے جذبات کا اظہار ایک مثالی طریقے سے کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس نظام میں انصاف نہ ہو وہاں برکت نہیں ہوتی اور یہ دھرنا انصاف کے لیے دیا گیا۔
مذاکرات کے لیے جانے والے وزرا میں زلفی بخاری بھی شامل تھے۔
مقامی میڈیا پر دکھائی جانے والی فوٹیج کے مطابق دھرنے کے شرکا دھرنے کے مقام سے منتشر ہو رہے ہیں اور مقتولین کی میتوں کو بھی وہاں سے لے جایا جا رہا ہے۔
دوسری جانب دارالحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک پر دیے جانے والا دھرنا بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق کراچی میں 20 سے زائد مقامات پر مچھ متاثرین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے احتجاج اور دھرنے جاری رکھے جو اب ختم کیے جا رہے ہیں۔
’کسی بھی ملک کے وزیرِ اعظم کو اس طرح بلیک میل نہیں کرتے‘
اس سے قبل جمعے کی صبح پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگر ہزارہ برادری مچھ میں قتل ہونے والے اپنے 11 افراد کی تدفین کر دیں تو وہ آج ہی کوئٹہ جائیں گے مگر ’بلیک میلنگ‘ میں نہیں آئیں گے۔
اسلام آباد میں سپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی کے قیام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ مچھ واقعے کے بعد انھوں نے فوراً وزیرِ داخلہ کو اور پھر دو وفاقی وزرا کو یہ بتانے کے لیے لواحقین کے پاس کوئٹہ بھیجا کہ حکومت پوری طرح ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا ’میں نے انھیں یقین دلایا کہ ہم لواحقین کا پوری طرح ان کا خیال رکھیں گے کیونکہ ان کے کمانے والے ہلاک ہوئے ہیں اور انھیں معاوضہ دیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’کل تک حکومت لواحقین کے سارے مطالبات مان چکی ہے، اب ان کا مطالبہ ہے کہ وزیرِاعظم آئیں تو دفنائیں گے۔‘
انھوں نے کہا ’ہم نے انھیں یہ پیغام پہنچایا ہے کہ جب آپ کے سارے مطالبات مان لیے ہیں، تو یہ مطالبہ کرنا کہ ہم وزیرِ اعظم کے نہ آنے تک نہیں دفنائیں گے، تو کسی بھی ملک کے وزیرِ اعظم کو اس طرح بلیک میل نہیں کرتے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس طرح ہوا تو کل کو ہر کوئی ملک کے وزیرِ اعظم کو بلیک میل کرے گا جس میں ان کے مطابق سب سے پہلے ملک کی اپوزیشن جماعتیں ہوں گی۔
’میں نے انھیں کہا ہے کہ جیسے ہی آپ انھیں دفنائیں گے تو میں کوئٹہ آؤں گا اور لواحقین سے ملوں گا۔ آج اس پلیٹ فارم سے دوبارہ کہہ رہا ہوں کہ اگر آپ آج دفنائیں گے تو میں آج کوئٹہ جاؤں گا۔‘
عمران خان نے کہا کہ یہ مطالبہ ناقابلِ فہم ہے کہ وزیرِاعظم آئے گا تو دفنائیں گے۔
اگرچہ وزیر اعظم نے ہزارہ برادری کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ وہ کئی سانحات کے بعد ان کے پاس گئے بھی ہیں اور انھوں نے ان کا خوف بھی دیکھا ہوا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں پر شاید سب سے زیادہ ظلم ہوا ہے، ان کو ٹارگٹ کیا گیا اور خاص طور پر 11 ستمبر کے بعد ان پر جس طرح ظلم کیا گیا، انھیں قتل کیا گیا، کسی اور کمیونٹی پر اس طرح کا ظلم نہیں ہوا۔‘
انھوں نے اس واقعے کو انڈیا کی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سازش کے تحت ملک میں اہلِسنت اور اہلِ تشیع علما کو قتل کر کے ملک میں انتشار پھیلانے کا منصوبہ تھا، جس سے ان کے مطابق وہ مارچ میں ہی اپنی کابینہ کو خبردار کر چکے تھے۔
انھوں نے کہا کہ وہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جنھوں نے چار بڑے واقعات روکے مگر اس کے باوجود ایک بڑے سنی عالم کا کراچی میں قتل کیا گیا اور حکومت نے بڑی مشکل سے یہ فرقہ وارانہ تفریق کی آگ بجھائی۔
مریم نواز کی پریس کانفرنس
پاکستان مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے وزیراعظم عمران خان کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’وزیراعظم کا رویہ فرعونیت ہے اور وہ متاثرین سے ضد لگائے بیٹھے ہیں۔‘
کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران مریم نواز نے کہا کہ ’وزیرا عظم عمران خان کا بیان انسانیت سے عاری ہے اور ان کی انا انھیں متاثرین کے پاس جانے سے روک رہی ہے۔‘
مریم نواز نے یہ بھی کہا کہ متاثرین کے پاس جانا وزیراعظم کی ذمہ داری نہیں بلکہ فرض تھا۔
انھوں نے کہا ’وزیراعظم کے پاس کتوں سے کھیلنےاور ڈرامے دیکھنے کا وقت ہے، جس انسان سے ہزارہ برادری امید لگائے بیٹھی ہے اس کے سینے میں دل نہیں۔‘
اپنی پریس کانفرنس میں مریم نواز نے ہزارہ برادری سے درخواست کی کہ وہ اپنے پیاروں کی میتوں کو دفنا دیں۔
دوسری جانب وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے چند مہینوں میں چار ایسے گروہ پکڑے ہیں جو شیعہ سنی فساد کروانے کے لیے دونوں مسالک کے علما کو قتل کرنا چاہتے تھے۔
’میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس المناک واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، ان کے سارے مطالبے منظور کر کے میں نے وزیرِ اعظم کو رپورٹ جمع کروا دی تھی۔‘
شیخ رشید نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ ’افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگ سمجھ نہیں رہے کہ سیاست کے لیے بڑا وقت پڑا ہے۔‘
’آج ہمیں امید ہے کہ علما کرام، ان کے قبائلی افراد ان سے بات چیت کر رہے ہیں، جیسے یہ ’مسئلہ‘ طے ہو گیا وہ یہاں سے کوئٹہ کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔‘
شیخ رشید نے کہا کہ عمران خان ہزارہ قبیلے سے ایک خاص ہمدردی رکھتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ عمران خان کے کوئٹہ جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے تاہم وہ چاہتے ہیں کہ جب وہ جائیں تو تدفین ہوچکی ہو تاکہ تمام باتیں تفصیل اور خوشدلی کے ساتھ مثبت طریقے کے ساتھ ہوں اور فیصلہ کُن اقدامات کیے جا سکیں۔
انھوں نے کہا کہ انھوں نے ایف سی کو پہلے ہی علاقے کی بڑے پیمانے پر تلاش کے لیے حکم دیا ہے تاکہ ان مجرموں کو سزا دی جا سکے جنھوں نے کان کنوں کو اور پاکستانی فوج کے اہلکاروں کو چند عرصہ قبل ہلاک کیا۔
انھوں نے کہا کہ اگر آج تدفین ہو جائے تو عمران خان آج شام کو ہی کوئٹہ جا سکتے ہیں۔
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ میتوں کو احترام کے لحاظ میں دیکھنا چاہیے اور ان کی تدفین کر دینی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے اس حوالے سے تمام علما کرام، سکالرز اور مجلس وحدت المسلمین سے تعاون مانگا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشتگردی کی نئی لہر موجود ہے اور اسلام آباد، لاہور، پشاور، اور کوئٹہ میں ہائی الرٹ ہے۔ انھوں نے کہا کہ پڑوسی ممالک سے ’را‘ کے ایجنٹ اور ان کے پے رول پر کام کرنے والوں کی طرف سے خطرات ہیں اور 20 مذہبی اور سیاسی افراد کی جانوں کو خطرہ ہے اور انھیں مطلع کر دیا گیا ہے۔
شیخ رشید نے کہا کہ مظاہرین کے تمام مطالبات مان لیے گئے ہیں، ڈی سی اور ڈی پی او کو معطل کر دیا گیا ہے مگر ان کا بلوچستان حکومت کے خاتمے کا مطالبہ ان کی وزارت کے دائرہ اختیار میں نہیں۔
شیخ رشید نے کہا کہ تدفین کے عمل میں ہی وزیرِاعظم وہاں موجود ہوں گے لیکن کچھ لوگ اس معاملے پر سیاست کر رہے ہیں۔
وفاقی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ ’عمران خان کے وہاں جانے میں تاخیر کی ایک وجہ یہ ہے کہ (حکومت کے پاس) بہت ساری ایسی معلومات ہیں جو ان کے مطابق عوام کے سامنے نہیں لائی جا سکتیں۔
شیخ رشید نے کہا کہ دھرنے کے مقام پر اگر وزیرِ اعظم وہاں گئے اور لوگوں کے مجمعے کو وزیرِ اعظم کی سکیورٹی کی وجہ سے دور کیا گیا تو بدمزگی پیدا ہو سکتی ہے، اس لیے ’بہتر طریقے اور سلیقے سے جانا بھی‘ ہماری جستجو ہے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ نے عمران خان کے ہزارہ برادری کو بلیک میلر قرار دینے کے بیان سے متعلق سوال کو ہنس کر ٹالتے ہوئے کہا کہ ’چھوڑیں، یہ ایسے ہی باتیں ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ بطور وزیرِ داخلہ وہ تصدیق نہیں کر سکتے کہ اس میں کون سا گروہ ملوث ہے مگر حکومت بہت وسیع پیمانے پر اس علاقے میں چھان بین کر رہی ہے۔
لواحقین کا دھرنا جاری
مچھ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کان کنوں کے قتل کے خلاف احتجاجی دھرنا کوئٹہ کے مغربی بائی پاس کے علاقے میں جاری ہے اور آج اس دھرنے کو چھٹا دن ہو چکا ہے۔
بی بی سی کے نمائندے محمد کاظم کے مطابق شدید سردی کے باوجود شرکا کی تعداد میں کمی نہیں آئی ہے اور مردوں کے ساتھ خواتین بھی اپنے بچوں سمیت بڑی تعداد میں دھرنے میں شریک ہیں۔
آج جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق نے کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا جہاں انھوں نے وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا یہ بیان ان کی ’منفی سوچ‘ کا عکاس ہے کہ انھیں بلیک میل کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ واقعی وزیرِاعظم ہیں تو آپ کو آنا چاہیے،اور اگر آپ نہیں ہیں تو آپ سے کوئی گلہ نہیں ہے۔‘
سراج الحق نے کہا کہ جتنی دیر تک عمران خان نہیں آئیں گے، تب تک ان لاشوں کو نہ دفنانے کی وجہ لواحقین نہیں بلکہ وزیرِ اعظم کی ’انا اور غرور‘ ہے۔
زارا ناصر جن کے بھائی اور دو کزن اس واقعے میں ہلاک ہوئے ہیں، ان کا عمران خان کے بیان پر کہنا تھا کہ ‘انھیں کیا ہمارے کٹے ہوئے گلے بلیک میل کر رہے ہیں، کیا ہمارا سردی میں انھیں بیٹھنا بلیک میل کر رہا ہے، یا ہمارے آنسو انھیں بلیک میل کر رہے ہیں۔’
بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ہم صرف ان سے درخواست کر رہے ہیں کہ ‘یہاں آؤ اور ہمارے زخموں پر مرہم رکھو، ہمیں یقین دلاؤ کہ دوبارہ ہمارے گلے نہیں کٹیں گے، آئندہ سے ہماری لاشیں ہماری آنکھوں کے سامنے پڑی نہیں رہیں گی۔’
انھوں نے کہا کہ اگر وزیرِ اعظم عمران خان نہیں آتے تو وہ لوگ یہں پر بیٹھے رہیں گے۔
احتجاجی کیمپ میں موجود ہزارہ برادری کے ایک رہنما علی حسنین نے وزیرِ اعظم عمران خان کے بیان پر کہا کہ ’بلیک میل وہ کرتا ہے جس کے ہاتھ میں اسلحہ ہو، جو دھمکی دے مگر یہاں دھمکی یا نقصان پہنچانے کی بات نہیں ہو رہی بلکہ بے دردی سے ہلاک کیے جانے والوں کے اہلخانہ ہیں۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ چھوٹی بچیاں اور بوڑھے جو اپنی مظلومیت کا اظہار کر رہے ہیں، یہ کیسے بلیک میل کر سکتے ہیں؟‘
انھوں نے کہا کہ عمران خان اس ملک کے شہریوں کے لیے باپ کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے انھیں اس واقعے کو اور ان کے کوئٹہ آنے کے مطالبے کو اس تناظر سے دیکھنا چاہیے۔
مجلس وحدت المسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان مقصود علی ڈومکی نے اس بیان کو شرمناک قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ عمران خان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جن کے گھر میں پانچ جنازے ہوں وہ کیا بلیک میل کرتے ہیں؟
مقصود ڈومکی کا کہنا تھا انھیں ’توقع نہیں تھی کہ ملک کے وزیرِ اعظم وارثوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک پاشی کریں گے۔ ‘
انھوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے مسلسل شرمناک بیانات سامنے آ رہے ہیں جن میں یہ بھی کہا گیا کہ مرنے والوں میں افغان مہاجرین بھی ہیں۔
’میں سوال پوچھتا ہوں کیا وہ انسان نہیں، کیا پاکستان میں رہنے والے افغان مہاجرین کا خون (بہانا جائز) ہے؟‘
واضح رہے کہ بلوچستان کے ضلع بولان کی تحصیل مچھ کے علاقے گشتری میں 2 اور 3 جنوری کی درمیانی شب داعش کے دہشت گردوں نے کوئلے کی کان میں کام کرنے والے شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو اغوا کر کے پہلے پہاڑوں پر لے گئے اور پھر ان کو بے دردی سے ذبح کر دیا گیا تھا، واقعے میں 11 مزدور ہلاک اور 6 زخمی ہوئے تھے۔