کوئٹہ (ڈیلی اردو/وی او اے) بلوچستان کے وزیرِ داخلہ ضیاء اللہ لانگو نے کہا ہے کہ مچھ میں ہزارہ برادری کے افراد کے قتل کا واقعہ سفاکانہ دہشت گردی ہے اور ان واقعات میں دشمن ہمسایہ ممالک ملوث ہیں۔ جنہیں مقامی سطح پر بھی حمایت حاصل ہے۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ضیاء اللہ لانگو کا کہنا تھا کہ صوبے میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات میں غیر ملکی عناصر کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بھارت افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کروا رہا ہے۔
ضیاء اللہ لانگو کہتے ہیں کہ گوادر بندرگاہ اور پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے دشمن ملک کو کھٹکتے ہیں اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذریعے خطے کی ترقی کے ان منصوبوں کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان نے بلوچستان کے علاقے سے بھارت کے مبینہ جاسوس کلبوشن جادیو کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور اس پر ملک میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرانے کی پشت پناہی کا الزام لگایا تھا۔ بھارت پاکستان کے دہشت گردی کے الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے۔ اس کا مؤقف ہے کہ کلبوشن جادیو سابق نیوی افسر ہے جسے پاکستان نے ایران سے اغوا کیا۔
ضیاء اللہ لانگو کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم نے وفاقی وزرا کو دھرنے کے شرکا کے مطالبات سننے کے لیے بھیجا تھا۔ واقعے کے بعد ہزارہ برادری نے لاشوں کے ہمراہ دھرنا دیا اور حکومت کے سامنے کچھ مطالبات رکھے۔ تمام مطالبات نہ صرف تسلیم کر لیے گئے ہیں۔ بلکہ ان پر عمل درآمد کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔
ان کے بقول مچھ واقعے کے متعلقہ سیکیورٹی اور انتظامی افسران کو معطل کر دیا گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت ہزارہ برادری کو کام کی جگہوں پر مؤثر تحفظ فراہم کرے گی اور اس حوالے سے وفاق کے ساتھ مل کر ایک جامع حکمتِ عملی بنائی گئی ہے۔
خیال رہے کہ مچھ واقعے میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے دس کان کنوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا جس کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔
وزیرِ داخلہ نے بتایا کہ صوبے میں امن و مان کی مجموعی صورتِ حال میں خاطر خواہ حد تک بہتری آئی ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے متعدد واقعات کو ناکام بنایا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ امن و امان کی صورتِ حال میں مزید بہتری کی ضرورت ہے اور دہشت گردوں پر مکمل قابو پانے کے اقدامات لیے جائیں گے۔
ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے کا عمل جاری ہے۔ جس کے مکمل ہونے پر دہشت گردوں کی نکل و حمل کو روکا جاسکے گا۔
صوبائی وزیرِ داخلہ نے تصدیق کی کہ مچھ واقعے میں ہلاک شدگان گیارہ کان کنوں میں افغان شہری بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہلاک شدگان تین افراد کی میتوں کی حوالگی کی افغان قونصل خانے نے پاکستان سے باقاعدہ درخواست کی ہے۔ جس کا قانونی جائزہ لیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان تین افغان شہریوں کے لواحقین ان کی تدفین اپنے ملک میں کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم لاشوں کی افغان حکومت کو حوالگی کا فیصلہ قانون کے مطابق لیا جائے گا۔
‘گوادر کے اطراف باڑ کا فیصلہ عارضی معطل ہے’
گوادر شہر کے اطراف باڑ لگانے کے اقدام پر صوبائی وزیرِ داخلہ نے بتایا کہ مقامی لوگوں کے خدشات کے پیشِ نظر اس عمل کو عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔
ان کے مطابق حکومت نے باڑ لگانے کا فیصلہ منسوخ نہیں کیا ہے البتہ مقامی افراد کے خدشات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ضرورت کو دیکھ کر باڑ لگانے یا نہ لگانے کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ گوادر میں باڑ لگانے پر بلوچستان کی سیاسی قیادت نے تحفظات کا اظہار کیا تھا جس کے بعد عدالت نے اس عمل کو عارضی طور پر روکنے کا حکم دیا تھا۔
ضیاء اللہ لانگو کہتے ہیں کہ گوادر سی پیک کا گیٹ وے ہونے کی وجہ سے دشمن کے نشانے پر ہے۔ جس کی وجہ سے جگہ جگہ چیک پوسٹ، سیکیورٹی ناکے اور تلاشیوں سے انتظامات کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی کے مشکل اور دقت طلب عمل سے بچنے کے لیے بندرگاہ شہر کے اطراف باڑ لگانے کی تجویز تھی۔
تاہم صوبائی وزیرِ کا کہنا تھا کہ اس بارے میں وہی فیصلہ لیا جائے گا جو عوام کی خواہش اور بہترین مفاد میں ہوگا۔
بلوچ علیحدگی پسندوں کو واپس قومی دھارے میں لانے کے لیے جاری مذاکرات میں تعطل کے سوال پر وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی کارروائیاں اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں ہوسکتے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک دہشت گردی ختم نہیں ہوتی وہ سمجھتے ہیں کہ علیحدگی پسندوں سے بات چیت نہیں ہوسکتی۔
یاد رہے کہ گزشتہ دور حکومت میں علیحدگی پسندوں کو ہتھیار پھینکنے پر قائل کرنے کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں سیکڑوں علیحدگی پسندوں نے ہتھیار حکومت کے حوالے کرکے بغاوت ترک کی تھی۔
ضیاء اللہ لانگو کہتے ہیں کہ حکومت بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ بات چیت کے لیے ہر وقت تیار ہے اور اس مقصد کے لیے بیک ڈور چینل سے بات چیت چل رہی ہے۔
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کے لیے ساز گار ماحول پیدا کرنا دونوں اطراف کی ذمہ داری ہے جو کہ عسکریت پسندی کے واقعات ترک کرنے سے ہی ممکن ہو سکے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام اس عمل کے حامی نہیں ہیں کہ تخریبی سرگرمیاں بھی ہوتی رہیں اور مذاکرات بھی چلتے رہیں۔
لاپتہ افراد کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بطور وزیرِ داخلہ اس معاملہ کو انہیں نے ترجیح سطح پر حل کرنے کی کوشش کی ہے۔
ضیاء اللہ لانگو نے دعویٰ کیا کہ انہوں وزارت داخلہ کے سربراہ کی حیثیت سے گزشتہ دو سال میں 300 سے زائد لاپتا افراد کو بازیاب کرایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم نے انہیں 450 افراد کی فہرست دی تھی۔ جن میں سے تین سو افراد اب تک بازیاب ہوچکے ہیں۔
ضیاء اللہ لانگو کہتے ہیں کہ لاپتا افراد کے حوالے سے حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے کوشاں ہے اور تین سو افراد کا بازیاب ہونا اس بات کا عملی ثبوت ہے۔
وفاق میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے ساتھ اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے تحفظات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اتحادی جماعتوں کے درمیان حکومت سازی کے عمل میں تحفظات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
صوبائی رہنما کا کہنا تھا کہ وفاق کے ساتھ ان کی جماعت کے اختلاف اس قدر نہیں ہیں کہ انہیں بات چیت سے حل نہ کیا جاسکے۔
ان تحفظات کے بارے میں سوال پر صوبائی وزیر نے کہا کہ حکومت سازی کے بعض معاملات پر اختلاف ہیں۔ تاہم وہ اس قدر نہیں ہیں کہ مسائل بن جائیں۔
تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کے سوال پر وہ کہتے ہیں کہ یہ اتحاد پانچ سال تک قائم رہے گا اور وفاق و صوبائی حکومتیں اپنی مدت مکمل کریں گی۔
خیال رہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی پاکستان تحریک انصاف نے بلوچستان عوامی پارٹی و دیگر اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر وفاق میں حکومت بنائی تھی۔ جب کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے تحریک انصاف کے اشتراک سے حکومت قائم کی۔
ہزارہ افراد کا قتل دہشت گردی ہے، ان واقعات میں دشمن ہمسایہ ممالک ملوث ہیں: وزیرِ داخلہ ضیاء اللہ لانگو
بلوچستان کے وزیرِ داخلہ ضیاء اللہ لانگو نے کہا ہے کہ مچھ میں ہزارہ برادری کے افراد کے قتل کا واقعہ سفاکانہ دہشت گردی ہے اور ان واقعات میں دشمن ہمسایہ ممالک ملوث ہیں۔ جنہیں مقامی سطح پر بھی حمایت حاصل ہے۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ضیاء اللہ لانگو کا کہنا تھا کہ صوبے میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات میں غیر ملکی عناصر کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بھارت افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کروا رہا ہے۔
ضیاء اللہ لانگو کہتے ہیں کہ گوادر بندرگاہ اور پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے دشمن ملک کو کھٹکتے ہیں اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذریعے خطے کی ترقی کے ان منصوبوں کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان نے بلوچستان کے علاقے سے بھارت کے مبینہ جاسوس کلبوشن جادیو کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور اس پر ملک میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرانے کی پشت پناہی کا الزام لگایا تھا۔ بھارت پاکستان کے دہشت گردی کے الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے۔ اس کا مؤقف ہے کہ کلبوشن جادیو سابق نیوی افسر ہے جسے پاکستان نے ایران سے اغوا کیا۔
ضیاء اللہ لانگو کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم نے وفاقی وزرا کو دھرنے کے شرکا کے مطالبات سننے کے لیے بھیجا تھا۔ واقعے کے بعد ہزارہ برادری نے لاشوں کے ہمراہ دھرنا دیا اور حکومت کے سامنے کچھ مطالبات رکھے۔ تمام مطالبات نہ صرف تسلیم کر لیے گئے ہیں۔ بلکہ ان پر عمل درآمد کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔
ان کے بقول مچھ واقعے کے متعلقہ سیکیورٹی اور انتظامی افسران کو معطل کر دیا گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت ہزارہ برادری کو کام کی جگہوں پر مؤثر تحفظ فراہم کرے گی اور اس حوالے سے وفاق کے ساتھ مل کر ایک جامع حکمتِ عملی بنائی گئی ہے۔
خیال رہے کہ مچھ واقعے میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے دس کان کنوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا جس کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔
وزیرِ داخلہ نے بتایا کہ صوبے میں امن و مان کی مجموعی صورتِ حال میں خاطر خواہ حد تک بہتری آئی ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے متعدد واقعات کو ناکام بنایا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ امن و امان کی صورتِ حال میں مزید بہتری کی ضرورت ہے اور دہشت گردوں پر مکمل قابو پانے کے اقدامات لیے جائیں گے۔
ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے کا عمل جاری ہے۔ جس کے مکمل ہونے پر دہشت گردوں کی نکل و حمل کو روکا جاسکے گا۔
صوبائی وزیرِ داخلہ نے تصدیق کی کہ مچھ واقعے میں ہلاک شدگان گیارہ کان کنوں میں افغان شہری بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہلاک شدگان تین افراد کی میتوں کی حوالگی کی افغان قونصل خانے نے پاکستان سے باقاعدہ درخواست کی ہے۔ جس کا قانونی جائزہ لیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان تین افغان شہریوں کے لواحقین ان کی تدفین اپنے ملک میں کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم لاشوں کی افغان حکومت کو حوالگی کا فیصلہ قانون کے مطابق لیا جائے گا۔
‘گوادر کے اطراف باڑ کا فیصلہ عارضی معطل ہے’
گوادر شہر کے اطراف باڑ لگانے کے اقدام پر صوبائی وزیرِ داخلہ نے بتایا کہ مقامی لوگوں کے خدشات کے پیشِ نظر اس عمل کو عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔
ان کے مطابق حکومت نے باڑ لگانے کا فیصلہ منسوخ نہیں کیا ہے البتہ مقامی افراد کے خدشات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ضرورت کو دیکھ کر باڑ لگانے یا نہ لگانے کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ گوادر میں باڑ لگانے پر بلوچستان کی سیاسی قیادت نے تحفظات کا اظہار کیا تھا جس کے بعد عدالت نے اس عمل کو عارضی طور پر روکنے کا حکم دیا تھا۔
ضیاء اللہ لانگو کہتے ہیں کہ گوادر سی پیک کا گیٹ وے ہونے کی وجہ سے دشمن کے نشانے پر ہے۔ جس کی وجہ سے جگہ جگہ چیک پوسٹ، سیکیورٹی ناکے اور تلاشیوں سے انتظامات کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی کے مشکل اور دقت طلب عمل سے بچنے کے لیے بندرگاہ شہر کے اطراف باڑ لگانے کی تجویز تھی۔
تاہم صوبائی وزیرِ کا کہنا تھا کہ اس بارے میں وہی فیصلہ لیا جائے گا جو عوام کی خواہش اور بہترین مفاد میں ہوگا۔
‘مذاکرات اور تخریبی کارروائیاں ایک ساتھ نہیں چل سکتیں’
بلوچ علیحدگی پسندوں کو واپس قومی دھارے میں لانے کے لیے جاری مذاکرات میں تعطل کے سوال پر وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی کارروائیاں اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں ہوسکتے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک دہشت گردی ختم نہیں ہوتی وہ سمجھتے ہیں کہ علیحدگی پسندوں سے بات چیت نہیں ہوسکتی۔
یاد رہے کہ گزشتہ دور حکومت میں علیحدگی پسندوں کو ہتھیار پھینکنے پر قائل کرنے کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں سیکڑوں علیحدگی پسندوں نے ہتھیار حکومت کے حوالے کرکے بغاوت ترک کی تھی۔
ضیاء اللہ لانگو کہتے ہیں کہ حکومت بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ بات چیت کے لیے ہر وقت تیار ہے اور اس مقصد کے لیے بیک ڈور چینل سے بات چیت چل رہی ہے۔
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کے لیے ساز گار ماحول پیدا کرنا دونوں اطراف کی ذمہ داری ہے جو کہ عسکریت پسندی کے واقعات ترک کرنے سے ہی ممکن ہو سکے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام اس عمل کے حامی نہیں ہیں کہ تخریبی سرگرمیاں بھی ہوتی رہیں اور مذاکرات بھی چلتے رہیں۔
‘300 لاپتا افراد بازیاب ہوئے’
لاپتہ افراد کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بطور وزیرِ داخلہ اس معاملہ کو انہیں نے ترجیح سطح پر حل کرنے کی کوشش کی ہے۔
ضیاء اللہ لانگو نے دعویٰ کیا کہ انہوں وزارت داخلہ کے سربراہ کی حیثیت سے گزشتہ دو سال میں 300 سے زائد لاپتا افراد کو بازیاب کرایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم نے انہیں 450 افراد کی فہرست دی تھی۔ جن میں سے تین سو افراد اب تک بازیاب ہوچکے ہیں۔
ضیاء اللہ لانگو کہتے ہیں کہ لاپتا افراد کے حوالے سے حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے کوشاں ہے اور تین سو افراد کا بازیاب ہونا اس بات کا عملی ثبوت ہے۔
وفاق میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے ساتھ اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے تحفظات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اتحادی جماعتوں کے درمیان حکومت سازی کے عمل میں تحفظات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
صوبائی رہنما کا کہنا تھا کہ وفاق کے ساتھ ان کی جماعت کے اختلاف اس قدر نہیں ہیں کہ انہیں بات چیت سے حل نہ کیا جاسکے۔
ان تحفظات کے بارے میں سوال پر صوبائی وزیر نے کہا کہ حکومت سازی کے بعض معاملات پر اختلاف ہیں۔ تاہم وہ اس قدر نہیں ہیں کہ مسائل بن جائیں۔
تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کے سوال پر وہ کہتے ہیں کہ یہ اتحاد پانچ سال تک قائم رہے گا اور وفاق و صوبائی حکومتیں اپنی مدت مکمل کریں گی۔
خیال رہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی پاکستان تحریک انصاف نے بلوچستان عوامی پارٹی و دیگر اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر وفاق میں حکومت بنائی تھی۔ جب کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے تحریک انصاف کے اشتراک سے حکومت قائم کی۔