افغانستان: کابل میں فائرنگ، سپریم کورٹ کی دو خواتین جج ہلاک

کابل (ڈیلی اردو) افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مسلح افراد کی فائرنگ سے سپریم کورٹ کی دو خواتین جج ہلاک ہو گئیں۔

افغان حکام نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ نامعلوم مسلح افراد نے صبح کے وقت کابل میں سپریم کورٹ کی خواتین ججز پر حملہ کیا جس میں دونوں ہلاک ہو گئیں۔

سپریم کورٹ کے ترجمان احمد فہیم قویم کے مطابق دونوں خواتین ججز کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنی سرکاری گاڑی پر اپنے دفتر جا رہی تھیں جب کہ حملے میں ڈرائیور زخمی ہوا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق افغانستان میں پر تشدد کاروائیوں میں ایسے وقت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے کہ جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات جاری ہیں۔

کابل میں حالیہ عرصے میں ہونے والے حملوں میں سرکاری افسران، سیاست دانوں، ڈاکٹرز، وکلا اور سول سوسائٹی کے کارکنوں اور صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس ہفتے امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں موجود فوج کی تعداد 2500 کر دی گئی ہے۔ جو کہ دو دہائیوں کے دوران افغانستان میں تعینات امریکی فوج کی سب سے کم تعداد ہے۔

کابل کی پولیس کی طرف سے بھی حملے کی تصدیق کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ افغانستان کی اعلی ترین عدالت میں دو سو سے زائد خواتین ججز کام کرتی ہیں۔

اس سے قبل فروری 2017 میں بھی سپریم کورٹ کے احاطے میں ایک خود کش حملہ کیا گیا تھا جس میں 20 افراد ہلاک اور 41 زخمی ہوئے تھے۔

افغان حکام کی طرف سے ان حملوں کا الزام طالبان پر لگایا جاتا ہے جب کہ طالبان کی طرف سے ان حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کرتے رہے ہیں۔

تاہم افغانستان میں ہونے والے ان حملوں میں سے چند حملوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ ‘داعش’ نے قبول کی ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں امریکی فوج کی طرف سے ان حملوں کا الزام طالبان پر لگایا گیا تھا۔

افغانستان میں امریکی فوج کے ترجمان کرنل سونی لیگٹ کا ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ طالبان کو حملے فوری طور پر بند کرنا چاہیئں تا کہ افغان امن عمل آگے بڑھ سکے۔

افغان حکام اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے باوجود پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ احمد ضیا سراج نے قانون سازوں کو بتایا کہ طالبان نے گزشتہ برس کے دوران 18 ہزار سے زائد حملے کیے۔

امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان گزشتہ سال 29 فروری کو معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت 14 ماہ کے دوران افغانستان میں تعینات تمام غیر ملکی فورسز کا انخلا ہونا ہے۔ جب کہ طالبان نے معاہدے میں یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ غیر ملکی فورسز پر اپنے حملے روک دیں گے اور القاعدہ یا کسی اور عسکری گروہ کو اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں سرگرم ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔

امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن اگرچہ اس بات کا عندیہ دے چکے ہیں کہ انسدادِ دہشت گردی کے لیے کچھ فوج افغانستان میں رکھی جا سکتی ہے۔ تاکہ القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیمیں امریکہ کے لیے خطرہ نہ بن سکیں۔

البتہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ میں آنے والی نئی انتظامیہ کی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بارے میں کیا پالیسی ہو گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں