کوئٹہ (ڈیلی اردو/وی او اے) صوبے بلوچستان کی ایک عدالت نے اگست 2020 میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکار کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے طالب علم حیات مرزا بلوچ کے قتل کیس میں ملزم کو سزائے موت کا حکم دیا ہے۔
مکران کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج رفیق احمد لانگو نے کیس کا فیصلہ سنایا۔
ضلع کیچ کے علاقے تربت آبسر میں 13 اگست 2020 کو ایف سی کے ایک اہلکار کی فائرنگ سے حیات مرزا بلوچ کی موت ہوئی تھی۔ حیات مراز بلوچ کراچی یونیورسٹی کے ایک طالب علم تھے۔ جب کہ یونیورسٹی بند ہونے پر چھٹیاں گزارنے گاؤں آئے ہوئے تھے۔
ہلاک طالب علم کے اہلِ خانہ کے مطابق حیات مرزا بلوچ کو جس دن گولیاں ماری گئی تھیں، اسی روز تربت کے علاقے آبسر میں ایک شاہراہ پر دھماکہ ہوا تھا۔ حیات مرزا بلوچ اپنے والدین کے ہمراہ اس شاہراہ کے قریب کجھور کے ایک باغ میں کام کر رہے تھے۔ اسی دوران ایف سی اہلکار باغ میں داخل ہوئے اور حیات مرزا بلوچ کو باغ سے باہر لے گئے۔ جہاں اس پر فائرنگ کی گئی جس سے اس کی موت واقع ہوئی۔
واقعے کے بعد قتل کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا تھا۔ تاہم سوشل میڈیا پر حیات مرزا بلوچ کے قریب ان کے والد اور والدہ کی ایک تصویر وائرل ہوئی جس کے بعد یہ مقدمہ ایف سی کے اہلکار شاہد اللہ کے خلاف دفعہ 302 کے تحت درج کیا گیا تھا۔ بعد ازاں حکام نے اس ایف سی اہلکار کو پولیس کے حوالے کیا تھا۔ ملزم کو ہلاک ہونے والے طالبِ علم کے والدین نے شناخت کر لیا تھا۔
‘کیس میں کسی قسم کا دباؤ نہیں تھا’
حیات مرزا بلوچ کے خاندان کے مقرر کردہ وکیل جادین بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کیس کی سماعت واقعے کے بعد ہی شروع ہو گئی تھی اور اس کیس کی 15 کے قریب سماعتیں ہوئیں۔
انہوں نے بتایا کہ کیس کی سماعت کے دوران کسی قسم کی رکاوٹ پیش نہیں آئی اور نہ ہی کسی قسم کے دباؤ سامنا رہا۔
حیات مرزا بلوچ کے ماموں حکیم بلوچ نے وائس آف امریکہ کو عدالتی فیصلے پر کہا کہ عدالتی فیصلے سے مطمئن ہیں۔ عدالت نے انصاف فراہم کیا ہے۔
حکیم بلوچ کے بقول روزِ اول سے حیات مرزا بلوچ کے والدین اور اہلِ خانہ کا یہی مطالبہ تھا کہ بغیر کسی قصور کے حیات مرزا بلوچ کو قتل کرنے والے ایف سی اہل کار کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد فرنٹیئر کور کے انسپکٹر جنرل اور سیکیورٹی فورسز کے دیگر حکام نے ان سے رجوع کیا تھا اور خود ان گھر آ کر ملزم کو قرار واقعی سزا دلانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
حکیم بلوچ نے بتایا کہ پانچ ماہ کے دوران اس کیس کی سماعت میں کرونا وائرس کی وبا کے علاوہ کسی قسم کی رکاوٹ پیش نہیں آئی۔