اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان میں وزارت دفاع نے ملک کی فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے بارے دائر درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں جواب جمع کردایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے ’انڈین خفیہ ادارے را کے ساتھ سنہ 2008 سے تعلقات ہیں۔‘
اس جواب میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اسد درانی ’ملک دشمن سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں‘۔ وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اسی بنیاد پر ان کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا جاسکتا، جس کی وجہ سے وہ ملک سے باہر قدم نہیں رکھ سکتے۔
تاہم اسد درانی ان الزامات کو ماضی میں کئی بار مسترد کر چکے ہیں۔
واضح رہے کہ انھوں نے انڈین خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ ایک کتاب لکھی تھی جس میں پاکستانی حکام کے بقول ایسا مواد بھی شامل تھا جو کہ پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق ہے۔
پاکستانی حکومت نے 29 مئی سنہ 2018 میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا نام ای سی ایل میں شامل کر دیا تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کی طرف سے حکومت کے اس اقدام کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک رٹ دائر کی گئی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ان کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس پٹیشن پر وزارت داخلہ سے جواب طلب کیا تھا۔
وزارت داخلہ نے اسد درانی سے متعلق اور کیا کہا؟
بدھ کے روز وزارت داخلہ کی طرف سے ایک جواب اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروایا گیا ہے۔ اس جواب میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے انڈین را کے سابق سربراہ کے ساتھ کتابیں لکھ کر آفیشل سیکرٹ ایکٹ سنہ 1923 کی بھی خلاف ورزی کی ہے اور اس جرم پر قانونی کارروائی آرمی ایکٹ کے تحت کی جاتی ہے۔
اس جواب میں آرمی ایکٹ سنہ 1952 کا بھی حوالہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ درحواست گزار تو فوج میں رہے ہیں لیکن اگر کوئی سویلین بھی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہو جس سے ملکی مفاد کو خطرہ ہو تو اس ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کے تحت اس کا بھی کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔
اس جواب میں ای سی ایل کے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے وزارت داخلہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہو یا جس سے قومی سلامتی کو خطرہ ہو تو وفاقی حکومت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اس شخص کا نام نوٹس دیے بغیر ای سی ایل میں شامل کر دے اور اسے ملک چھوڑنے کی اجازت نھیں دی جاسکتی
اس جواب میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کے خلاف تحقیقات آخری مراحل میں ہیں اور ایسے مرحلے پر ان کا نام ای سی ایل سے نھیں نکالا جاسکتا۔
وزارت داخلہ نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ اس مرحلے پر درخواست گزار کا ملک سے باہر جانے کا مقصد ’بین الاقوامی کانفرنس، فورم اور ٹاک شوز میں حصہ لینا ہے اور ایسا ہونے سے ملکی سلامتی کے لیے پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔‘
اس جواب میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے گذشتہ برس 12 اور 13 اکتوبر کو سوشل میڈیا پر آکر جس طرح اپنے جذبات کا اظہار کیا ’اس کو کسی بھی محب وطن شہری نے اچھا تصور نھیں کیا۔‘ تاہم اس جواب میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے ان ’جذبات‘ کی کوئی تفصیل بیان نھیں کی گئی۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کی طرف سے اس درخواست پر آئندہ سماعت 12 فروری کو ہوگی اور عدالت نے وفاقی حکومت کو درخواست گزار کی طرف سے لکھی جانے والی کتاب کے شائع ہونے والے ان حصوں کو بھی پیش کرنے کا حکم دیا ہے جو کہ حکومت کے بقول ’ملکی سلامتی کے خلاف‘ ہیں۔
اسد درانی کا کیا موقف ہے؟
گذشتہ سال بی بی سی کو دیے ایک انٹرویو میں اسد درانی نے کہا تھا کہ ‘جب تک کسی کتاب میں تنازع نہ ہو تو فائدہ کیا ہے؟ وہ تو پھر ایک سرکاری قسم کی تحریر ہو گی جو آپ آئی ایس پی آر سے لے لیں یا سرکار سے لے لیں۔ تنازع تو آپ کو پیدا کرنا ہے تاکہ بحث ہو سکے۔’
‘سپائی کرونکلز: را، آئی ایس آئی اینڈ دی الوژن آف پیس’ اسد درانی اور انڈیا کے خفیہ ادارے ‘را’ کے سابق سربراہ اے ایس دُلت نے انڈیا اور پاکستان کی صورتحال کے پس منظر میں مشترکہ طور پر تحریر کی
ریاست کے راز افشا کرنے کے الزامات کے جواب میں انھوں نے کہا تھا کہ ‘شور بہت مچا لیکن کسی نے آج تک بتایا نہیں کہ اس کتاب میں ریاست سے منسلک کون سے راز تھے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت لوگوں پر مقدمہ چلانا سب سے آسان کام ہے۔ جتنی باتیں راز تھیں وہ بھی آہستہ آہستہ کسی نے اِدھر سے بتا دیں، کسی نے اُدھر سے، تو رازداری کی کوئی بات نھیں ہے۔
‘مجھے ایسا لگتا ہے کہ اپنا تجزیہ دے کر میں نے کسی کمزوری کو ظاہر کر دیا ہے یا دُم پر پاؤں رکھ دیا ہے۔ میں نے ایک تجزیہ دیا جس کی بنیاد اس بات پر تھی کہ اگر میں اس وقت ہوتا تو کیا کرتا؟’
انھوں نے کہا تھا کہ ‘فوج کے اندر کئی لوگوں نے اپنی کتابیں لکھیں اور کسی نے ان سے نھیں پوچھا کہ انھوں نے کیا لکھا ہے۔’
’مجھے ریٹائرمنٹ کے وقت اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے کہا تھا کہ تمھیں خود دیکھنا ہے کہ اپنی بات کہاں تک لکھنی ہے اور کہاں تک نھیں۔ اپنا سینسر خود ہی کرو اور اصول بھی یہی ہے۔’
اسد درانی کون ہیں؟
80 سالہ اسد درانی پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ہیں۔
انھیں سنہ 1988 میں بطور ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلیجنس تعینات کیا گیا تھا۔ جبکہ سنہ 1990 میں انھیں بطور ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کیا گیا تھا۔
سنہ 1993 میں ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے پاکستان کے سفیر کے طور پر جرمنی اور سعودی عرب میں بھی اپنے فرائض انجام دیے ہیں۔
اسد درانی اکثر تنازعات کی زد میں رہتے ہیں، چاہے وہ ان کی چھپنے والی دو کتابوں میں موجود معلومات سے متعلق ہو یا پھر اسامہ بن لادن سے منسلک ان کے بیانات جنھیں وہ اپنا ‘تجزیہ’ کہتے ہیں۔
سپائی کرانیکلز کے مصنف جنرل اسد درانی کو 90 کی دہائی میں ہی فوج سے بے دخل کیا گیا تھا۔ اصغر خان کیس میں ان کا نام آنے کے بعد انھیں آئی ایس آئی سے جی ایچ کیو بلوا لیا گیا تھا اور پھر جب دوبارہ یہ سامنے آیا کہ وہ سیاسی امور میں مداخلت کر رہے ہیں تو انھیں قبل از وقت ریٹائر کر دیا گیا تھا۔
وہ اپنی کتاب ‘اونر امنگسٹ سپائیز’ کے چھپنے کے بعد بھی خبروں میں رہے۔ یہ کتاب ان کی پہلی چھپنے والی کتاب ‘سپائی کرونیکلز’ کے سلسلے کی دوسری کتاب ہے۔
وہ سنہ 1990 کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کی تشکیل کے مقدمے میں بھی ملوث ہیں جس میں اُنھوں نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں کو بھاری رقوم دینے کا اعتراف کیا تھا۔