اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کی عدالتِ عظمٰی نے ذہنی امراض میں مبتلا دو قیدیوں کی سزا کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے ان مجرمان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ہے۔
عدالت نے دونوں مجرموں کو پنجاب کے ذہنی امراض کے اسپتال منتقل کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جسٹس منظور احمد ملک کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے سزائے موت کے ایسے قیدیوں کو، جو ذہنی امراض سے دوچار ہیں، پھانسی دینے کے خلاف اپیلوں پر تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق مجرمان امداد علی اور کنیزاں بی بی کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا گیا ہے۔ جب کہ عدالت نے دونوں مجرموں کو پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں واقع ذہنی امراض کے اسپتال میں منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے تیسرے مجرم غلام عباس کی سزائے موت کے خلاف اپیل صدر پاکستان کو دوبارہ بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ صدر سے توقع ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں رحم کی اپیل پر فیصلہ کریں گے۔
واضح رہے امداد علی، کنیزاں بی بی اور غلام عباس کو قتل کے مقدمات میں موت کی سزائیں سنائی گئیں تھیں۔
کنیزاں بی بی کو 1991، امداد علی کو 2002 اور غلام عباس کو 2004 میں سزائیں سنائی گئی تھیں۔
کمالیہ کی کنیزاں بی بی کو چھ افراد کے قتل کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ جب کہ وہاڑی کے امداد علی پر بورے والا میں ایک شخص حافظ عبد اللہ کو قتل کرنے کا الزام ثابت ہوا تھا۔
لارجر بنچ میں جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔
پانچ رکنی بینچ نے اپنا فیصلہ گزشتہ ماہ سات جنوری کو محفوظ کیا تھا۔
عدالتِ عظمٰی نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو فیصلے کی روشنی میں ذہنی مسائل سے دوچار افراد سے متعلق قوانین میں ترامیم کرنے اور ایسے قیدیوں سے متعلق جیل رولز میں بھی ترامیم کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے وفاق اور صوبوں کو ذہنی مریض قیدیوں کے لیے معیاری فرانزک ہیلتھ سہولیات شروع کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
عدالتِ عظمٰی نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ سزائے موت کے قیدیوں کی ذہنی کیفیت کی جانچ کے لیے ماہرِ نفسیات پر مشتمل میڈیکل بورڈ بنایا جائے۔ میڈیکل بورڈ ذہنی مریض قیدیوں کو سزائے نہ دینے کی وجوہات کا تعین کرے گا۔
اِس موقع پر سپریم کورٹ نے وفاق اور صوبوں کو زیرِ سماعت ذہنی امراض میں مبتلا ملزموں کی بھی جانچ کے لیے میڈیکل بورڈز بنانے کا حکم دیتے ہوئے جیل حکام، سماجی کارکنوں، پولیس اور ماہرِ نفسیات کے تربیتی پروگرام شروع کرنے کا بھی حکم دیا۔
عدالت نے وفاقی اور صوبائی جوڈیشل اکیڈمیز میں ججز، وکلا اور پراسیکیوٹرز کے لیے تربیتی پروگرامز شروع کرنے کا حکم دیتے ہوئے عمل درآمد کے لیے فیصلے کی کاپی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ارسال کرنے کے احکامات دیے۔
کینزاں بی بی کے چچا زاد بھائی محمد منور نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ دورانِ قید اپنی چچا زاد بہن کو ملنے کے لیے جایا کرتے تھے۔ ایک دن دورانِ ملاقات اُنہیں اپنی کزن کی حرکتوں پر شک ہوا کہ وہ دماغی طور پر ٹھیک نہیں ہیں۔ جس کا ذکر اُنہوں نے اپنے وکیل سے کیا۔
محمد منور کے مطابق ایک مرتبہ دورانِ ملاقات کنیزاں بی بی بہت رو رہیں تھی۔ کوئی بات نہیں کر رہیں تھیں اور دیوانوں جیسی حرکتیں کر رہی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں کچھ پتا نہیں چلا۔ وہ عجیب سے حرکتیں کرتی تھیں۔ وہ بول نہیں سکتی تھیں۔ اشاروں سے بتاتی تھیں کہ اُسے بجلی اور استری سے جھٹکے لگاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ پاگل ہو گئی ہے۔ اشاروں سے بتاتی تھیں کہ ان کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے۔
مقدمے کی سماعت کے دوران معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر مودت رانا اور ایڈووکیٹ حیدر رسول مرزا نے عدالت کی معاونت کی۔
کیس کی سماعت کے بعد عدالتی معاون حیدر رسول مرزا نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ذہنی مرض میں مبتلا افراد کی پھانسی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ مثالی ہے۔ اِس فیصلے میں قواعد طے کیے گئے ہیں جو لوگ ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں اُن کو قانون کے مطابق کیسے برتاؤ کیا جائے گا۔
حیدر رسول مرزا نے کہا کہ اِس فیصلے کے تین اہم نکات ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے اگر وقوع کے وقت کوئی ملزم یہ کہے کہ وہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا تھا جس کی وجہ سے وہ وقوع ہوا تو قانون کے مطابق اُس کی کیسے تشریح کی جائے گی۔
ان کے مطابق دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر ٹرائل کے دوران ملزم یہ نکتہ اُٹھاتا ہے کہ وقوعے کے وقت وہ کسی ذہنی بیماری کا شکار تھا تو اُس کو قانونِ شہادت کے مطابق یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ کسی ذہنی کیفیت میں مبتلا تھا جس کی وجہ سے اُس کو قانون رعایت دے گا جس کی وجہ سے جو جرم اُس نے کیا ہے وہ جرم نہیں کہلائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ تیسرا اہم نکتہ ہے کہ کیا ایک ذہنی بیمار شخص کو سزا ہو چکی ہو اور دورانِ سزا وہ کسی ذہنی بیماری سے دوچار ہو جائے تو کیا اُس کو پھانسی کی سزا دی جا سکتی ہے۔
عدالتی معاون نے کہا کہ اگر میڈیکل بورڈ اپنی تحقیق کے بعد اِس نتیجے پر پہنچے کہ مذکورہ شخص کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہے جس کے قواعد طے کیے گئے ہیں۔ میڈیکل بورڈ کی رائے میں یہ بات ثابت ہو جائے کہ واقعی ملزم ذہنی بیمار ہے تو اُس کو سزا نہیں دی جائے گی۔ یہ میڈیکل سائنسز سے متعلق کیس ہے جس میں میڈیکل بورڈ کی رائے 464، 465 سے متعلق ایک بورڈ بنانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
واضح رہے کنیزاں بی بی کو پہلی مرتبہ 2006 میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ منتقل کیا گیا تھا جہاں ان میں شیزوفرنیا کی تشخیص ہوئی تھی۔
امداد کے اہل خانہ کے مطابق مقدمے سے پہلے بھی امداد علی میں ذہنی بیماری کی علامات موجود تھیں۔ 2012 میں ان میں شیزوفرنیا کی تشخیص ہوئی۔
کنیزاں کے معاملے میں 2018 میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیا تھا اور معاملہ پانچ رکنی لارجر بینچ کو ارسال کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے حکم پر میڈیکل بورڈ تینوں قیدیوں کی جانچ کر چکا ہے جس میں ان تینوں میں شیزوفرنیا کی مختلف اقسام کی تصدیق ہوئی۔
تینوں قیدیوں کی قانونی نمائندگی جسٹس پراجیکٹ پاکستان کر رہا ہے۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی سربراہ سارہ بلال سمجھتی ہیں کہ عدالتِ عظمٰی کا اِس مقدمے میں فیصلہ صرف اہم ہی نہیں بلکہ مثالی اور تاریخی بھی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سارہ بلال نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک مثالی فیصلہ دیتے ہوئے پورے قانون کو دیکھا ہے۔ قانون میں جو جو خامیاں تھیں اور جو جو سیف گارڈز تھے اُس میں عدالت نے ذہنی بیمار مجرموں کو اُن کے حقوق دیے ہیں۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی سربراہ سارہ بلال کہتی ہیں کہ ہمارے اداروں، پراسیکیوشن، ڈیفنس کونسلز اور جیلوں کے عملے کو یہ نہیں معلوم کہ کس شخص کو کس طرح کی بیماری ہے۔ کس طرح اُن کے ساتھ برتاؤ کرنا ہے۔ کس طرح سے اُن کے حقوق کا خیال رکھنا ہے۔ یہ تمام چیزیں اِس فیصلے میں بتائی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ پاکستان کی جیلوں میں کتنے لوگ بیمار ہیں۔ اُمید ہے کہ اِس فیصلے کے بعد صوبائی سطح پر اِس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ذہنی امراض میں مبتلا مجرموں کی صحیح تعداد بھی معلوم کی جا سکے۔
سارہ بلال کہتی ہیں کہ کیا ذہنی طور پر متاثرہ شخص کو صحتیاب ہونے کے بعد دوبارہ سزا دی جا سکتی ہے یا نہیں اِس بارے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔