جنیوا (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسیاں) معاہدۂ روم کے رکن ممالک کی اسمبلی نے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے ماہر اور فوجداری قانون کے وکیل کریم اسد احمد خان کوعالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی ) کا نیا چیف پراسیکیوٹر منتخب کرلیا ہے۔
آئی سی سی کے قیام سے متعلق معاہدۂ روم کے رکن 123ممالک کا نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں اجلاس منعقد ہوااوراس میں پچاس سالہ پاکستانی نژاد کریم خان کا انتخاب کیا گیا ہے۔ وہ آئی سی سی کی موجودہ پراسکیوٹر فاتو بن سودہ کی جگہ 16 جون کو اپنا منصب سنبھالیں گے۔ مس فاتو کی نو سالہ مدت جون میں ختم ہورہی ہے۔
آئی سی سی کے رکن ممالک کی اسمبلی کے اجلاس میں انھوں نے رائے شماری کے دوسرے مرحلے میں 72 ووٹ حاصل کیے ہیں۔ان کے مدمقابل آئیرلینڈ سے تعلق رکھنے والے امیداوار فرگل گےنور کو 42 ووٹ ملے،اسپین کے کارلوس کاسٹرسانا فرنانینڈیز صرف پانچ ووٹ لے سکے اور اٹلی کے فرانسیسکو لوووئی کے حق میں صرف تین ووٹ ڈالے گئے۔
کریم خان بین الاقوامی فوجداری قانون اور بین الاقوامی انسانی قانون میں تخصص کے حامل ہیں۔انھوں نے عراق میں داعش کی چیرہ دستیوں ، جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کی قیادت کی تھی۔وہ گذشتہ 28 سال سے قانون کے پیشے سے وابستہ ہیں۔وہ لبنان اور سیرالیون سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی عدالتوں کے بھی رکن رہ چکے ہیں۔
آئی سی سی کے نئے چیف پراسیکیوٹر کی حیثیت سے ان کی پہلی ذمے داری افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات سے متعلق آیندہ اقدامات کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔اس کے علاوہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے جنگی جرائم کی مزید تحقیقات سے متعلق بھی کوئی فیصلہ کریں گے۔
ہیگ میں قائم عالمی فوجداری عدالت نے پانچ فروری کو یہ قرار دیا تھا کہ 1967ء کی جنگ کے بعد سے اسرائیل کے زیرقبضہ چلے آنے والے فلسطینی علاقے اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور اس کو مقبوضہ غربِ اردن بہ شمول مشرقی یروشلیم اور غزہ کی پٹی میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے جنگی جرائم کی تحقیقات کا حق حاصل ہے جبکہ اس عالمی عدالت کے اس اقدام کی اسرائیل اور اس کے اتحادی امریکا نے مخالفت کی ہے۔ان دونوں ممالک نے معاہدۂ روم پر دست خط نہیں کیے تھے۔اس لیے وہ آئی سی سی کا حصہ نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے فاتوبن سودہ اور آئی سی سی کے ایک اور عہدے دار پرپابندیاں عاید کررکھی ہیں۔امریکا نے یہ فیصلہ ان دونوں کی اسرائیل کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور امریکی فوجیوں کے افغانستان میں جنگی جرائم سے متعلق تحقیقات کے ردِّعمل میں کیا تھا۔