ڈھاکا (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو/اے ایف پی) بنگلہ دیش کے ایک عدالت نے پانچ انتہا پسندوں کو موت کی سزا سنائی ہے۔ ان پر ایک بنگلہ دیشی نژاد امریکی مصنف کو قتل کرنے کا جرم ثابت ہو گیا ہے۔
منگل سولہ فروری کو بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے کم از کم پانچ ملزمان کو سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔ ان ملزمان کا تعلق ایک انتہاپسند تنظیم سے بتایا جاتا ہے۔ ان انتہا پسندوں نے سماجی کارکن اویجیت رائے کو چھ برس قبل انتہائی بہیمانہ انداز میں قتل کیا تھا۔
اویجیت رائے
مقتول ابھی جیت رائے کو فروری سن 2015 میں ٹوکے سے قتل کر دیا گیا تھا۔ وہ ایک مقبول بلاگر ہونے کے ساتھ ساتھ دس کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ ان کی ایک کتاب ‘وشواشر وائرس‘ یعنی مذہب کا وائرس (Virus of Faith) انتہائی مقبول اور ‘بیسٹ سیلنگ‘ میں شمار ہوتی ہے۔ ان کو بنگلہ دیش میں منعقد ہونے والے کتابوں کے ایک بڑے میلے کے باہر مجرموں نے دبوچ کر ٹوکے سے قتل کر دیا تھا۔
اویجیت رائے سن 1972 میں پیدا ہوئے تھے اور سن 2006 میں انہوں نے امریکا کی شہرت اختیار کر لی تھی اور وہاں سے بھی وہ لادین بلاگرز کو جیل میں ڈالنے پر بنگلہ دیشی حکومت پر تنقید کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ اس قتل نے سارے بنگلہ دیش میں انتہا پسندوں کا خوف پیدا کر دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ بظاہر اس لہر پر حکومت قابو پا چکی ہے لیکن ان انتہا پسندوں کی دھمکیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
سزائے موت کا فیصلہ
اویجیت رائے کے قتل کا مقدمہ بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا کی انسدادِ دہشت گردی کے خصوصی ٹریبیونل میں چلایا جا رہا تھا۔ دو مجرموں کو ان کی عدم موجودگی میں سزا سنائی گئی ہے۔ اس مقدمے کے سرکاری وکیل یا وکیل استغاثہ غلام سرور ذاکر نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ عدالت نے اس قتل کے چھ مجرموں میں سے پانچ کو سزائے موت اور ایک کو عمر قید سنائی ہے۔
جن دو افراد کو ان کی عدم موجودگی میں سزا سنائی گئی، ان میں ایک سابقہ فوجی افسر سید ضیا الحق بھی شامل ہے۔ وکلائے دفاع نے خصوصی ٹریبیونل کے فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
مجرمان کا تعلق انتہا پسند تنظیم سے ہے
ان سبھی مجرموں کا تعلق مبینہ طور پر انتہا پسند تنظیم ‘انصار اللہ بنگلہ ٹیم‘ سے ہے۔ سید ضیا الحق اس تنظیم کا سربراہ خیال کیا جاتا ہے اور وہ ابھی تک مفرور ہے۔ انصار اللہ بنگلہ ٹیم مشہور بین الاقوامی دہشت گرد گروپ انصار اللہ کی ذیلی شاخ بتائی جاتی ہے۔
منگل کے روز دیے گئے فیصلے سے قریب ایک ہفتہ قبل آٹھ انتہا پسندوں کو بھی موت کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ ان کو ایک پبلشر کو قتل کرنے کے جرم میں سزا موت سنائی گئی تھی۔ اسی مقتول پبلشر نے اویجیت رائے کی دو کتابوں کو شائع کیا تھا۔
حکومتی اقدامات
یہ امر اہم ہے کہ بنگلہ دیش میں سن 2013 سے لیکر سن 2016 تک بعض سیکولر سماجی کارکنوں، بلاگرز اور لادین دانشوروں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس عرصے میں بنگلہ دیش میں شدید تناؤ کی صورت حال پیدا تھی۔
حکومت نے ایسے انتہا پسندوں کی سرکوبی کے لیے پولیس کے خصوصی دستے قائم کر رکھے ہیں۔ پولیس کا یہ شعبہ دھمکیوں کی بھی تفتیش کرتا ہے۔ اب تک پولیس کی مختلف جوابی کارروائیوں میں ایک سو سے زائد انتہا پسند ہلاک اور کئی سو زیر حراست ہیں۔
نصف درجن اسلامی انتہا پسند تنظیموں کو خلافِ قانون قرار دیا جا چکا ہے۔ ان انتہا پسندوں نے مشہور کرکٹر شکیب الحسن کو بھارت میں منعقدہ ایک تقریب میں شریک ہونے پر دھمکی دے رکھی ہے۔ حکومت نے ملک کی قومی کرکٹ ٹیم کے اس کھلاڑی کو خصوصی سکیورٹی فراہم کر رکھی ہے۔