اسلام آباد (نیوز ڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جھوٹی گواہی دینے پر عمر قید کی سزا کا عندیہ دے دیا۔
بدھ کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں جعلی گواہ کیخلاف کارروائی پر سماعت ہوئی۔
دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جھوٹی گواہی پر عمر قید کا عندیہ دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون کے مطابق جھوٹی گواہی پر عمر قید کی سزا دی جاتی ہے۔
اس دوران جھوٹا گواہ محمد ارشد عدالت میں پیش ہوا جس نے اے ایس آئی مظہر حسین کے قتل کیس میں مبینہ جھوٹی گواہی دی۔
چیف جسٹس نے ملزم سے استفسار کیا کہ آپ قومی رضا کار ہیں، آپ رضاکارانہ گواہ بھی بنتے ہیں؟
محمد ارشد نے کہا کہ میں اللہ کی رضا کے لیے کام کرتا ہوں، اس پر چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ اللہ کی رضا کیلئے جھوٹ بھی بولتے ہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا میڈیکل 3 دن بعد کیوں ہوا ؟ جس پر محمد ارشد نے بتایا مجھے چھرا لگا تھا، 3 دن بعد بازو پر خارش ہوئی تو چھرا باہر نکلا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ زیادہ چرب زبانی نہ کریں، یہ کہتا ہے چھرا لگا میڈیکل رپورٹ کے مطابق تیز دھار آلے کا زخم ہے، کہتا ہے ملزم کو ٹارچ کی روشنی میں دیکھا، باقی گواہ کہتے ہیں گھپ اندھیرا تھا۔
چیف جسٹس نے محمد ارشد سے مکالمے میں کہا آپ کے بیان پر کسی شخص کو سزائے موت ہو گئی تو، قومی رضا کار ہیں گواہی بھی رضا کارانہ دی۔
جسٹس آصف کھوسہ نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں آپ کیخلاف کارروائی کیوں نہ کی جائے، کیا حکومت ان کو تنخواہ دیتی ہے، جس پر نمائندہ فیصل آباد پولیس نے بتایا حکومت 2 ہزار روپے مہینہ ان کو تنخواہ دیتی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پولیس والا کسی معاملے میں قتل ہو گیا یہ ساتھ گئے ہوں گے، پولیس کی عزت بچانے کیلئے جھوٹی گواہی دے دی۔