پشاور (ڈیلی اردو) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے کہا ہے کہ مادری زبان تہذیب و تمدن اورکلچر و ثقافت کا خزانہ ہے اور مادری زبان کی بدولت ہی انسان اپنی ثقافت اور تہذیب و تمدن سے منسلک رہتا ہے۔مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں اسفندیار ولی خان نے کہا کہ مادری زبانوں سے متعلق ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ دُنیا بھر کے تمام قدیم اورجدید دور کے ماہرین تعلیم، دانشور، فلاسفر اس بات پر متفق ہیں کہ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے،
معصوم بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دینا ضروری ہے کیونکہ دُنیا بھر میں ترقی یافتہ ملکوں کی ترقی اور سائنسی استعدادکا راز اسی حقیقت میں مضمر ہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ 21 فروری کو مادری زبانوں کے دن کے طور پر منانا ایک اچھی روایت ہے تاہم اب اس سے آگے بڑھنے کا وقت آگیا ہے اور اسے ایک تحریک کی شکل دینا ضروری ہو چکا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اے این پی کے دور حکومت میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے مادری زبانوں کے حوالے سے آئینی حقوق محفوظ کر دیئے گئے ہیں، ریجنل لینگویجز اتھارٹی کے قیام کا بنیادی مقصد علاقائی زبانوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا لہٰذا اے این پی ریجنل لینگویجز اتھارٹی کے قیام کا کریڈٹ فخریہ طور پر لیتی ہے اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ ریجنل لینگویجز اتھارٹی کو مزید فعال کیا جائے کیونکہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ خیبر پختونخوا پر مسلط حکومت اصل معنوں میں علاقائی زبانوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہی ہے۔
اسفندیار ولی خان نے کہا کہ ادبی تنظیمیں اٹھارویں ترمیم میں مادری زبانوں کیلئے کی گئی قانون سازی کو عملی بنانے کیلئے آگے بڑھیں۔ جہاں تک پشتو زبان کا تعلق ہے دُنیا بھر میں رہنے والے لاکھوں پختونوں اور پاکستان میں بولی جانے والی دوسری بڑی زبان ہے جبکہ بین الاقوامی سطح پر بھی درجنوں نشریاتی اداروں سے اس زبان میں پروگرام نشر ہوتے ہیں، اے این پی کی صوبائی حکومت نے پشتو کو پرائمری درجوں میں ذریعہ تعلیم قرار دیااور اُن علاقوں میں جہاں پشتو مادری زبان تھی ابتدائی جماعتوں کیلئے پشتو میں نصاب تیار کیا اور ساتھ ساتھ ہندکو ،کھوار،سرائیکی اور کوہستانی زبان کو بھی لازمی قرار دیا گیا تھا لیکن ایک مخصوص مائنڈ سیٹ نے اس منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔
اُنہوں نے تجویز پیش کی کہ مادری زبانوں کی ترویج کیلئے ایک تحریک کا آغاز کیا جائے ۔ مرکزی صدر نے کہا کہ اگر بنگالیوں کو ان کے حقوق دیئے جاتے تو پاکستان ٹوٹنے سے بچ جاتا کیونکہ بنگالیوں کی تحریک بنیادی طور پر بنگالی زبان کے ساتھ کی گئی زیادتی کا نتیجہ تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس سانحے کے باوجود ہمارے حکمرانوں نے اپنے رویئے تبدیل نہیں کئے اور آج بھی پشتواور دیگر زبانوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ، انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے دورحکومت میں پشتو اور دیگر زبانوں کو ان کے جائز حقوق دلوائے مگر موجودہ حکمرانوں نے ایک سازش کے تحت ہمارے اقدامات کو سبوتاژ کیا اور پشتون دشمن رویہ اپنایا۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی قوم مادری زبان کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی اور ہم اس حق کیلئے اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے، قوموں کی حقیقی ترقی مادری زبان میں تعلیم سے ممکن ہے پشتو ایک جامع زبان جبکہ پختون پر امن اور ترقی پسند قوم ہے مگر ان کا قومی و بین الاقوامی سطح پر بلاوجہ استحصال کیا گیا، وقت آچکا ہے کہ ہمارے دانشور، شعراء اور ادباء پشتو زبان کے فروغ کیلئے علمی وسیاسی بصیرت کے ساتھ منظم تحریک کا آغاز کریں اور اسے بین الاقوامی سطح پر منوانے کیلئے اپنی نوجوان نسل کو بھی تیار کریں۔
اسفندیار ولی خان نے مزید کہا کہ پشتو زبان کو نصاب کا حصہ بنانا اور پختون قوم کو آگے لے کر جانے کیلئے ہمارے شعراء کو حکومتی اور سیاسی قوتوں کیساتھ سر جوڑ کر چلنا پڑا تو یہ مہنگا سودا نہیں ہوگا ،پختون معاشرے کو درپیش چیلنجوں سے متعلق ان کا مزید کہنا تھا کہ شعراء و ادباء قوم کے حقیقی غمخوار ہیںان کو پختون ثقافت و روایات اور مسائل سے باخبر رہنا اور ان کے حل کیلئے تیار ہونا ہوگا۔