اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستانی سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پاکستان میں اگر کوئی سانحۂ مشرقی پاکستان پر بات کرے تو اسے خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ صحافیوں کو اسلام آباد سے اغوا کیا جاتا ہے تو وزیرِ اعظم کہتے ہیں کہ مجھے کچھ معلوم نہیں۔
منگل کو صدارتی ریفرنس پر نظرثانی اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی عیسیٰ نے خود عدالت میں دلائل دیے۔
جسٹس عیسی کے ان دلائل پر کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل جج جسٹس منظور احمد ملک نے ریمارکس دیے کہ ہر بات ہر جگہ کرنا مناسب نہیں ہوتا، قاضی صاحب جذباتی نہ ہوں۔
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس فیصلے پر نظرِ ثانی درخواستوں کی سماعت براہ راست نشر کرنے سے متعلق درخواست پر بھی سماعت ہوئی۔
عدالتِ عظمیٰ نے منیر اے ملک کی علالت کے باعث عدم دستیابی کی درخواست پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دلائل دینے کی اجازت دے دی۔
سماعت شروع ہوئی تو جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیے کہ بعض اوقات ذاتی معاملات میں اچھا رویہ رکھنا مشکل ہوتا ہے، وکیل سائل اور عدالت کے درمیان رابطہ کار ہوتا ہے۔
انہوں نے جسٹس فائز عیسیٰ سے کہا کہ آپ کا اور میرا تعلق ایک آئینی ادارے سے ہے، ہمیں بہت سی چیزوں پر رائے دینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ججز کی ایک ڈیوٹی صبر اور تحمل کرنا بھی ہے۔
جسٹس عمر عطا نے مزید کہا کہ اعتراضات اور سوالات پر توقع ہے کہ آپ تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جہاں آپ کو محسوس ہو کہ میں حد پار کر رہا ہوں تو مجھے روکا جائے۔
میرے خلاف سرکاری پروپیگنڈا کیا گیا، جسٹس فائز عیسیٰ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دلائل میں کہا کہ لندن کی جائیدادیں میرے جج بننے سے بھی پہلے کی ہیں۔ جائیدادیں خریدتے وقت میرے بچے بالغ تھے۔ سپریم کورٹ کا جج بننے کے بعد میں نے کوئی جائیداد نہیں خریدی۔ اہلیہ نے نجی بینک میں فارن کرنسی اکاؤنٹ کھلوایا جس سے رقم منتقل ہوئی۔ فارن کرنسی اکاؤنٹ کو اس وقت قانونی تحفظ حاصل تھا۔
جسٹس فائز نے کہا کہ 23 مئی 2019 کو میرے خلاف ریفرنس چیف جسٹس کو بھجوایا گیا، 29 مئی کو ریفرنس کی خبر میڈیا پر آئی۔ پوری دنیا میں میرے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا۔ مجھے اور میرے اہلِ خانہ کو بدنام کیا گیا۔ میرا کیریئر تو 65 سال کی عمر میں ختم ہوجائے گا لیکن شہرت قبر تک ساتھ چلے گی، میں نہیں چاہتا کہ میری شہرت پر حرف آئے۔
‘بات کرو تو ریفرنس آ جاتا ہے’
دلائل دینے کے دوران ایک موقع پر جسٹس فائز عیسیٰ آبدیدہ ہو گئے۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صحافیوں کو اسلام آباد سے اغوا کر لیا جاتا ہے. صحافیوں کے اغوا پر وزیراعظم کہتے ہیں مجھے کیا معلوم؟، صحافیوں پر تشدد ہوا کسی نے انکوائری تک نہیں کی، ذمہ داروں کا نام بتاؤں تو میرے خلاف ریفرنس آ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ “سانحہ مشرقی پاکستان پر بات کی جائے تو خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ قائد اعظم اور میرے والد کی روح قبر میں تڑپ رہی ہو گی” اس موقعے پر انہوں نے ایک سخت لفظ استعمال کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہم پاکستان میں نہیں، (فلاں جگہ) میں رہتے ہیں۔
قاضی فائز عیسیٰ کے ان الفاظ پر جسٹس عمر عطا بندیال نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ قاضی صاحب یہ عدالت ہے اور ہمیں مقدمات کے فیصلے کرنے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ ہم اپنی حدود سے باہر نہ نکلیں۔ آپ کو کسی سے مسئلہ ہے تو اسے عدالت سے باہر ہی رکھیں، کوئی صحافی اغوا ہوا ہے تو اس کا الگ سے کیس لائیں۔
جسٹس منظور احمد ملک نے ریمارکس دیے کہ قاضی صاحب جذباتی نہ ہوں کیس پر توجہ رکھیں۔ ہر بات ہر جگہ کرنا مناسب نہیں ہوتا۔
اس پر قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ میری ذات کو بھول جائیں میں ملک کے لیے جذباتی ہو رہا ہوں۔
‘فیصلہ بے شک میرے خلاف آئے لیکن ٹی وی پر دکھایا جائے’
جسٹس فائز عیسیٰ کی طرف سے ان کی نظرِ ثانی درخواست کی سماعت براہ راست ٹی وی پر دکھانے کی متفرق درخواست پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ صرف عدالتی معاملہ نہیں، سپریم کورٹ کا پالیسی اور انتظامی مسئلہ بھی ہے، براہ راست کوریج میں عملی طور پر بھی بہت مشکلات ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ آج ایک خبار نے خبر لگائی کہ براہ راست ٹی وی پر سماعت دکھانے کی میری درخواست مسترد کردی گئی ہے۔ اس پر جسٹس عمر عطا نے کہا کہ کسی ایک اخبار نے شاید غلط خبر لگائی ہو، آپ کی بات سننے والے تمام افراد جانب دار نہیں ہو سکتے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ہٹلر کو بھی معلوم تھا ٹینک سے زیادہ میڈیا کا استعمال کرنا ہے، ٹی وی پر دو لوگوں کو بٹھا کر بحث کرائی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کل صحافیوں کی جانب سے کہا گیا لائیو کوریج میں معاونت کر سکتے ہیں، آئین میں پارلیمنٹ کی کارروائی براہ راست دکھانے کا ذکر نہیں لیکن پی ٹی وی پارلیمنٹ کی کارروائی براہ راست دکھاتا ہے۔ میرے نام پر داغ لگا ہوا ہے جسے صاف کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ براہ راست کوریج میں ایڈیٹنگ کی گنجائش نہیں ہوتی، عدالت کا فیصلہ چاہے میرے خلاف آئے لیکن ٹی وی پر براہ راست آنا چاہیے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اگر عدالت براہ راست کوریج پر متفق ہوئی تو ریاستی مشینری استعمال ہو گی۔ کسی نجی کیمرے کو عدالت میں آنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ عدالت میں صرف صحافی ہونے چاہیئں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا انگلش گانے کا حوالہ
دورانِ سماعت جسٹس فائزعیسیٰ نے انگلش گانے Not in love but I am open to persuasion کا حوالہ دیا جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم persuasion کے لیے تیار ہیں۔
عدالت میں ججز کے مکالمے پر قہقہے گونجنے لگے۔
کمرۂ عدالت میں جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کون نمائندگی کرے گا؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیس مقرر ہوا تو وزیرِ قانون اور اٹارنی جنرل دونوں ہی موجود نہیں تھے۔ مجھے صرف نوٹس لینے کی ہدایات ملی ہیں جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ حیرت ہے اب تک تعین نہیں ہو سکا وفاق کا وکیل کون ہو گا۔
کیس کی مزید سماعت بدھ تک ملتوی کر دی گئی۔