روہنگیا مہاجرین سے متعلق بھارت کی پناہ گزین پالیسی پر ’مذہبی رنگ کا غلبہ‘

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے انڈیا کی حکومت سے کہا ہے کہ وہ ملک میں پناہ لینے والے روہنگیا مہاجرین اور میانمار سے تعلق رکھنے والے دوسرے پناہ گزینوں کو جبراً میانمار واپس بھیجنے سے گریز کرے جہاں انھیں مقامی حکام سے جان ومال کا خطرہ لاحق ہے۔

چھ مارچ کو انڈین پولیس نے انڈیا کے زیر انتظام جموں خطے میں دستاویزات کی تصدیق کے لیے تقریباً 170 روہنگیا مہاجرین کو حراست میں لیا اور بعد میں انھیں مقامی جیل بھیج دیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ان افراد کو واپس میانمار بھیجے گی۔

واضح رہے کہ میانمار میں روہنگیا برادری کے خلاف مبینہ نسل کشی کی مہم کے بعد ہزاروں روہنگیا مہاجرین نے انڈیا میں پناہ لے رکھی ہے۔

انڈیا نے اگرچہ 1961 کے حقوق انسانی کے کنونشن اور 1967 پروٹوکول پر دستحط نہیں کیے ہیں لیکن اس نے 1947 میں آزادی کے بعد سے ہی پناہ گزینوں سے متعلق انسانی ہمدردی کی پالیسی اختیار کی۔

ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشا کی سربراہ میناکشی گانگولی کہتی ہیں ’جس وقت انڈیا غریب تھا اس وقت بھی یہاں پناہ گزیں آتے رہے۔ سب سے پہلے تبتی آئے، میانمار سے لوگ آئے، سری لنکا سے پناگزیں آئے، افغانستان سے آئے، پاکستان سے آئے، یہاں تک کہ عراق اور شام سے بھی مہاجرین یہاں آئے۔‘

چند برس قبل تک انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کے مختلف علاقوں، خاص طور سے دیہی اور کم آباد علاقوں میں دنیا کے مختلف ملکوں کے پناہ گزینوں کی بستیاں تھیں۔ اب بھی کئی مقامات پر افغان، تبتی، روہنگیا اور پاکستانی ہندو پناہ گزینوں کے کیمپ موجود ہیں۔

اس سے قبل عراقی اور فلسطینیوں نے بھی بڑی تعداد میں انڈیا میں پناہ لی تھی لیکن اب بیشتر دوسرے ملکوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔

تاہم روہنگيا مسلمانوں کا تعلق اس نسلی اور مذہبی گروہ سے ہے جسے انڈیا میں حکومت اور اس کی ایما پر میڈیا کی جانب سے ابتدا سے ہی دشواریوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

گذشتہ انتخابات میں بی جے پی کی مہم میں روہنگیا برادری کو نشانہ بنایا گیا اور انھیں ’انتہا پسند‘ اور ملک کی ’سلامتی کے لیے خطرہ‘ قراد دیا گیا۔ روہنگیا کیمپوں کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ میانمار میں انتہائی ناموافق حالات کے باوجود انڈین حکومت اس امر پر مُصر رہی کہ وہ روہنگیا مہاجرین کو میانمار واپس بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

میناکشی گانگولی کہتی ہیں کہ اب ’مذہب کی بنیاد پر فیصلے کیے جا رہے ہیں۔

‘شہریت کا جو نیا قانون بنایا گیا ہے وہ تفریق پر مبنی قانون ہے کیونکہ اس میں صرف مسلمانوں کو پناہ دینے سے منع کیا گیا ہے۔ باقی سبھی مذہبی اقلیتوں کو پناہ دینے کی بات کہی گئی ہے۔’

انڈیا میں پناہ گزینوں کے امور کی سرکردہ تجزیہ کار اور مصنفہ پروفیسر انندیتا گھوشال کا خیال ہے کہ انڈیا کی پناہ گزینوں کی پالیسی میں ابتدا سے ہی خامیاں رہی ہیں۔

‘کسی حکومت نے کبھی بھی پناہ گزینوں کے لیے کسی مسلمہ پالیسی پر عمل نہیں کیا۔ آج بھی کوئی جامع پالیسی نہیں ہے اور 1960 کے عشرے میں آنے والے پناہ گزینوں کے لیے بھی کوئی پالیسی نہیں تھی۔

’بنگلہ دیش سے انڈیا آنے والے چکما بدھسٹ پناہ گزین جو اب ارونا چل پردیش میں آباد ہیں وہ اب ‘سٹیٹ لیس’ یا بے ملک ہو چکے ہیں جبکہ ان میں سے بیشتر انڈیا میں پیدا ہوئے لیکن پچاس برس بعد بھی وہ اس ملک کے شہری نہ بن سکے۔‘

’رائٹس اینڈ رسکس انالیسس گروپ‘ کے سربراہ سہاش چکما کا خیال ہے کہ انڈیا کی پالیسی پہلے بھی ‘سلیکٹیو’ یعنی امتیازی تھی اور آج بھی ویسی ہی ہے لیکن انھوں نے مزید کہا کہ اب اس میں ’مذہبی زاویے کی آمیزش ملنے سے یہ اور زیادہ سلیکٹیو ہو گئی ہے۔

‘ایک ہی ملک کے لیے الگ الگ پالیسیاں ہیں۔ اگر برمی نسل کا کوئی پناہ گزیں ہے تو اس کا خیر مقدم ہوگا لیکن اگر وہاں کا کوئی روہنگیا یہاں پناہ لینے آئے تو اسے گرفتار کیا جائے گا اور جبراً واپس بھی بھیجا جا سکتا ہے۔’

سہاش چکما کہتے ہیں حکومت پناہ دینے کے ضمن میں صرف اپنے سیاسی مفاد کا لحاظ رکھتی ہے۔

‘پناہ گزینوں کی پالیسی سے متعلق قانونی ڈھانچے اور قانون میں جو خامیاں پہلے تھیں وہ آج بھی ہیں۔ حکومت جو فیصلے کرتی ہے وہ صرف اپنے سیاسی مفاد کے پیش نظر کرتی ہے اور اس میں نہ قانون کا کوئی پہلو ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کے حقوق کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔’

ان کا کہنا ہے کہ شہریت کا نیا قانون لوگوں کے لیے مزید مشکلیں پیدا کرے گا۔

‘یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے، اس میں کسی کو شہریت دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔’

دوسری جانب انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا ہے کہ اس قانون سے کسی کے ساتھ تفریق نہیں برتی جائے گی اور اس کا مقصد ہے کہ پڑوسی ملکوں سے آنے والے مذہبـی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کو ملک میں تیزی سے شہریت دی جا سکے۔

انھوں نے یہ وضاحت بھی کی تھی کہ اس قانون میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان جیسے ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہاں مذہبی بنیاد پر مسلمانوں کے ستائے جانے کا کوئی سبب نہیں ہے اس لیے وہاں سے مسلمان مہاجرین کے یہاں آ کر پناہ لینے کا کوئی جواز نہيں ہے۔

حال میں روہنگیا پناہ گزینوں کی گرفتاری پر ایک ٹویٹ میں بی جے پی کے سینیئر رہنما اور سابق گورنر تتھا گت رائے نے لکھا ‘اگر ہم نے ایک بھی روہنگیا کو پناہ دی تو پھر چیچنیا کے مسلمانوں کو بھی پناہ دینے کا مطالبہ شروع ہو جائے گا۔’

بی جے پی کے ایک دوسرے رہنما اور سابق مرکزی وزیر سبرامنیم سوامی نے اپنے پیغام میں لکھا کہ ‘میڈیا روہنگیا کو پناہ نہ دینے پر واویلا کیوں مچا رہا ہے۔ کیا انڈیا نے اکھنڈ بھارت کی ایک تہائی زمین مسلمانوں کا ایک ملک بنانے کے لیے نہیں دی؟’

لیکن مبصرین کو خدشہ ہے کہ اس قانون کو دوسرے ممالک کے غیر مسلمان مہاجرین کو پناہ دینے سے کہیں زیادہ استعمال ملک کے اندر ’نئے مہاجرین‘ بنانے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔

پروفیسر انندیتا گھوشال کہتی ہیں اس پالیسی نے پہلے ہی کافی پیچیدگی پیدا کر دی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ریاست بنگال کے مرشدآباد اور مالدہ جیسے مسلم آبادی والے علاقوں میں مسلمان خوف میں مبتلا ہیں جنہیں خدشہ ہے کہ اگر آسام کی طرح یہاں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اقتدار میں آگئی تو ان کا کیا ہوگا۔

‘سبھی کے پاس زمینیں ہیں، سب انڈین شہری ہیں، کھیتی باڑی کرتے ہیں، شناختی کارڈ ہے، دستاویزات ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ آسام میں یہی ہوا اور اُن لوگوں کا شناختی کارڈ لے لیا گیا اور پھر ان کی شہریت واپس لے لی گئی۔ ان کے پاس سب کچھ ہے لیکن سکیورٹی نہیں ہے۔’

پرفیسر انندیتا کہتی ہیں کہ ان لوگوں کو خدشہ ہی یہی ہے کہ اگر حکومت نے یہ پالیسی اختیار کر لی تو بہت سے لوگ بے وطن ہو جائیں گے۔

گذشتہ ہفتے روہنگیا مہاجرین کی گرفتاری پر حکومت کا کہنا ہے کہ روہنگیا غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہوئے ہیں۔ ان کے پاس سفری دستاویزات نہیں تھے اس لیے انھیں باضابطہ طور پر پناہ گزین کا درجہ حاصل نہیں اور اسی وجہ سے حکومت کو ملک کی قومی سلامتی کے مدنظر یہ فیصلہ کرنا پڑا ہے۔

ایسے ییانات سے بظاہر لگتا ہے کہ پناہ گزینوں کے لیے انڈیا کی قومی پالیسی میں انسانی ہمدردی کا جو پہلو تھا وہ اب کہیں پس منظر میں چلا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں