اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) 12 برس کی مسیحی لڑکی فرح کا کہنا ہے کہ انھیں گذشتہ سال ان کے گھر سے اغوا کیا گیا، باندھ کر رکھا گیا، زبردستی اسلام قبول کروایا گیا اور اپنے اغوا کار کے ساتھ شادی پر مجبور کر دیا گیا۔
پاکستان میں ہر سال سینکڑوں مسیحی، ہندو اور سکھ نوجوان لڑکیوں کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گذشتہ برس 25 جون کو فیصل آباد میں فرح اپنے دادا، تین بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ تھیں جب ان لوگوں کو دروازے پر دستک سنائی دی۔
فرح کو یاد ہے کہ ان کے دادا دروازہ کھولنے گئے۔ جس کے بعد تین افراد تیزی سے ان کے گھر کے اندر گھس آئے اور فرح کو پکڑ کر زبردستی ایک وین میں ڈال دیا۔
فرح کے والد آصف اس وقت کام پر گئے ہوئے تھے۔ ’ان لوگوں نے گھر والوں کو دھمکی دی کہ اگر فرح کو واپس حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔‘
آصف اس واقعے کی رپورٹ درج کروانے کے لیے قریبی پولیس سٹیشن گئے۔ یہاں تک کہ انھوں نے پولیس کو ایک اغوا کار کا نام بھی بتایا جسے فرح کے دادا نے پہچان لیا تھا لیکن وہ کہتے ہیں کہ پولیس نے کوئی مدد نہیں کی۔
’انھوں نے بالکل بھی تعاون نہیں کیا اور جرم کی رپورٹ درج کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بجائے انھوں نے مجھے دھکے اور گالیاں دیں۔‘
وہ مسلسل تھانوں کے چکر لگاتے رہے اور آخر کار تین مہینے کے بعد پولیس نے رپورٹ درج کی لیکن اس کے بعد بھی فرح کی بازیابی کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔
فرح بتاتی ہیں کہ اس دوران انھیں 70 میل دور حافظ آباد شہر میں ایک گھر میں لے جایا گیا جہاں ان کا ریپ کیا گیا، بیڑیاں پہنائی گئیں اور ان کے ساتھ ایک غلام کی طرح سلوک کیا گیا۔
’مجھے زیادہ تر زنجیروں سے باندھ کر رکھا جاتا تھا جبکہ اغواکار کے گھر کی صفائی اور جانوروں کا خیال رکھنے کا حکم تھا۔ وہ سب بہت تکلیف دہ تھا۔‘
’وہ مجھے زنجیروں اور رسیوں سے باندھ کر رکھتے تھے۔ میں نے رسی کو کاٹنے اور زنجیروں کو کھولنے کی بارہا کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوئی۔ میں ہر رات خدا سے مدد کی دعا کرتی تھی۔‘
پاکستان میں گذشتہ مردم شماری کے مطابق ملک میں تقریباً 20 لاکھ مسیحی رہتے ہیں جو ملک کی آبادی کے ایک فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک ہزار کے قریب مسیحی، ہندو اور سکھ لڑکیوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔ ان میں سے اکثر سے جبراً اسلام قبول کروایا جاتا ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر لڑکا اور لڑکی مسلمان ہیں تو شرعی قانون 16 سال سے کم عمر افراد کے درمیان شادی کی اجازت دیتا ہے۔ فرح کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ انھیں پہلے زبردستی اسلام قبول کروایا گیا اور پھر اغوا کار سے زبردستی شادی کر دی گئی۔
نیشنل کونسل آف چرچز اِن پاکستان (این سی سی پی) کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
این سی سی پی کے جنرل سیکرٹری بشپ وِکٹر ازارایا کہتے ہیں ’ایسا سینکڑوں کی تعداد میں ہو رہا ہے، بہت سی لڑکیوں کے ساتھ ہو رہا ہے اور حکام کچھ نہیں کرتے۔‘
فرح کے مضطرب والد آصف نے مقامی چرچ کی مدد حاصل کی جہاں سے ان کے خاندان کو قانونی مدد فراہم کی گئی۔
اغواکار کی گرفتاری اور فرح کو آزاد کروانے کی پانچ مہنیوں کی مسلسل کوششوں کے بعد گذشتہ برس دسمبر کے اوائل میں آخر کار پولیس نے کارروائی کی۔
فرح کہتی ہیں ’چار پولیس اہلکار اغوا کار کے گھر آئے اور انھوں نے کہا کہ عدالت کا حکم ہے کہ مجھے ان کے ساتھ پولیس سٹیشن جانا ہو گا۔‘
پانچ دسمبر کو یہ مقدمہ فیصل آباد کی ڈسٹرکٹ اور سیشن عدالت کے سامنے پیش کیا گیا اور مجسٹریٹ نے فرح کو دارالامان بھیج دیا اور مزید تحقیقات شروع ہو گئی۔
تاہم فرح کے خاندان کی مشکل ختم نہیں ہوئی۔ وہ لوگ ابھی عدالت سے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے کہ پولیس نے فرح کے والد کو بتایا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات ختم کر رہی ہے کیونکہ فرح نے کہا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا تھا اور شادی کی تھی۔
23 جنوری کو فرح نے یہی بات عدالت میں بھی دہرائی تاہم عدالت کے حکام کو شک تھا کہ انھوں نے یہ بیان کسی دباؤ میں دیا ہے۔ فرح کہتی ہیں کہ بالکل ایسا ہی تھا۔
’میں نے یہ اس لیے کہا تھا کہ اغوا کار نے مجھے دھمکی دی تھی کہ اگر میں نے یہ بیان نہیں دیا تو وہ میرے والد، بھائیوں، بہنوں اور پورے خاندان کو قتل کر دے گا۔ میں بہت ڈری ہوئی تھی اس لیے یہ سب کہنے پر رضامند ہو گئی۔‘
تین ہفتے بعد 16 فروری کو یعنی فرح کے اغوا کو تقریباً آٹھ مہینے گزر چکے تھے جب عدالت نے فرح کی شادی کو غلط قرار دیا کیونکہ یہ مناسب طریقے سے رجسٹر نہیں ہوئی تھی۔
شادی کی رجسٹریشن میں مسئلے کے باعث فرح بچ گئیں اور اپنے خاندان کے پاس واپس پہنچ سکیں۔
اغوا کی جانے والی لڑکیاں واپس آنے کے بعد بھی مصیبت میں رہتی ہیں۔ اکثر لڑکیوں کو دوبارہ اغوا کی دھمکیاں ملتی ہیں جبکہ خاندان والوں کو بھی قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اس طرح ان پر ذہنی دباؤ برقرار رہتا ہے۔
یہی کچھ 14 برس کی ماریہ شہباز کے کیس میں بھی ہوا۔ انھیں بھی اغوا کیا گیا، زبردستی اسلام قبول کروایا گیا اور شادی کروائی گئی۔ ماریہ کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔ وہ اور ان کا خاندان قتل کی مسلسل دھمکیوں کے بعد چھپنے پر مجبور ہو گئے۔
برطانیہ میں حال ہی میں ایک فلاحی ادارے ’ایڈ ٹو دا چرچ اِن نیڈ‘ کی جانب سے ماریہ شہباز کی مدد کے لیے ساڑھے 12 ہزار دستخطوں پر مشتمل ایک پٹیشن تیار کی گئی جو برطانوی حکومت کو دی گئی ہے جس میں ماریہ کے لیے برطانیہ میں سیاسی پناہ کی اپیل کی گئی ہے۔ اس پٹیشن پر 30 سے زیادہ اراکینِ پارلیمان نے دستخط کیے ہیں جن میں بشپ، ہاؤس آف لارڈز اور دارالعوام کے اراکین شامل ہیں۔
اس فلاحی ادارے کے ترجمان جان پونٹیفیکس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اغوا ہونے والی لڑکیوں اور ان کے خاندان کے لیے صورتحال کافی خراب ہے۔
’ان بچیوں کو جس طرح کے ذہنی دباؤ سے گزرنا پڑتا ہے وہ اکثر انھیں اور ان کے خاندانوں کو ملنے والی دھمکیوں کی وجہ سے بڑھ جاتا ہے۔ ماریہ جیسی کچھ لڑکیوں کے لیے برطانیہ میں پناہ ہی تحفظ کی آخری امید ہے۔‘
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ملک میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والوں سے زبردستی مذہب تبدیل کروانے کے واقعات کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے مذہبی ہم آہنگی طاہر محمود اشرفی نے حال ہی میں بیان دیا کہ دوسرے مذاہب کی لڑکیوں سے زبردستی شادیاں، ان کے مذہب تبدیل کروانے اور کم عمر لڑکیوں کے اغوا کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
تاہم فرح کے والد آصف کو انصاف کے حصول میں پولیس کے جس برتاؤ کا سامنا کرنا پڑا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو ابھی بہت کام کی ضرورت ہے۔
آصف نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے تینوں اغواکاروں کو سزا دلوانے کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔
فرح کی عمر اب 13 سال ہے اور وہ اپنے گھر میں خوش ہیں۔ ایک ماہرِ نفسیات کی مدد سے ان کے زخم آہستہ آہستہ مندمل ہو رہے ہیں جو ان کے ذہن اور جسم پر لگے تھے۔
فرح کو امید ہے کہ دوسری لڑکیوں کو اس مصیبت سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ ’میری دعا ہے کہ خدا پاکستان کے تمام بچوں کی حفاظت کرے اور انھیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔‘