کابل (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو/روئٹرز/اے ایف پی) فغانستان میں یہ خودکش کار بم دھماکا ایسے وقت ہوا ہے جب عالمی طاقتیں جنگ زدہ ملک میں قیام امن اور مستقل جنگ بندی کے لیے کوشاں ہیں۔
Photos: Aftermath of a car bomb attack in the city of Herat that according to officials, killed 8 people, including 7 civilians. pic.twitter.com/ilaIXKuOpl
— TOLOnews (@TOLOnews) March 13, 2021
افغانستان کے مغربی صوبے ہرات میں جمعے کے روز ہونے والے ایک کار بم دھماکے میں کم از کم اٹھ افراد ہلاک اور 53 دیگر زخمی ہوگئے۔
#AFG Suicide car bomb inside a residential area in Herat city . It was a powerful explosion. At least 2 people killed. At least 32 people wounded – mostly civilians. Video shared with me. pic.twitter.com/dJlRS8KLkb
— BILAL SARWARY (@bsarwary) March 12, 2021
ہرات کے گورنر سید عبدالواحد قتالی نے بتایا کہ دھماکے کے بعد درجنوں مکانات اور دکانیں تباہ ہوگئیں۔ ہلاک ہونے والوں میں عورتیں اور بچے شامل ہیں۔ امدادی کارکن ملبے میں دبے افراد کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔
Aftermath of #Herat city bomb blast which killed at least 8 people and wounded over 50 others. No group has claimed for the responsibility. #Photos from Herat Governor office. pic.twitter.com/zr8b3Ry0oW
— Khalil Noori BBC (@KhalilNoori) March 13, 2021
گوکہ کسی گروپ نے اس دھماکے کی ذمہ داری فی الحال قبول نہیں کی ہے تاہم مقامی حکام نے اس واقعے کا ذمہ دار طالبان کو ٹھہرایا ہے۔
بنیاد پرست سنی طالبان نے تقریباً دوعشروں سے مغربی حمایت یافتہ افغان حکومت کے خلاف جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔
قیام امن کیلئے عالمی طاقتوں کی کوشش
ہرات میں کار بم دھماکہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب روس نے افغانستان میں مستقبل کی عبوری حکومت میں طالبان کو شامل کرنے کی امریکی تجویز کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عالمی طاقتیں افغانستان کے لیے ایک ایسے انتظام کی کوشش کررہی ہیں جس سے جنگ زدہ ملک میں سکیورٹی کو یقینی بنایا جاسکے۔
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریاز زاخارووا نے جمعے کے روز پریس بریفنگ کے دوران کہا، ” ایک عبوری شمولیتی انتظامیہ کی تشکیل طالبان کو افغانستان کے پرامن سیاسی زندگی میں شامل کرنے کے مسئلے کا منطقی حل ہوگا۔” انہوں نے مزید کہا، ” یہ فیصلے افغانوں کو خود کرنا ہوں گے۔”
افغان صدر اشرف غنی نے افغانستان کے لیے عبوری حکومت کی تجویز کو مسترد کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے انتخابات کے بعد ہی نئی حکومت کی تشکیل ہونی چاہئے۔
جنگ بندی کیلئے امریکا، روس اور چین کی کوششیں
امریکا، افغانستان کے لیے سیاسی حل اور متحارب دھڑوں کے مابین مستقل جنگ بندی کے لیے روس، چین اور دیگر ملکوں کے ساتھ کا م کررہا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے جمعہ کے روز کہا، ” ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ روس اور اس خطے کے دیگر ممالک ایک محفوظ اور مستحکم افغانستان کے لیے اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔”
روس 18مارچ کو ایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کرنے جا رہا ہے جس میں افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے افغان حکومت کے نمائندے اور دیگر فریقین بھی شرکت کریں گے۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں سفارتی مذاکرات فی الحال تعطل کا شکار ہیں اور ترکی اگلے ماہ ایک امن مذاکرات کی میزبانی کرے گا۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ فی الحال اس بات پر غور و خوض کررہی ہے کہ آیا سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان کے درمیان فروری 2020ء میں ہونے والے معاہدے کو برقرار رکھا جائے۔ اس معاہدے کے تحت تمام امریکی افواج کو یکم مئی تک افغانستان چھوڑ دینا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے حال ہی میں افغان صدر اشرف غنی کو بھیجے گئے ایک خط میں کہا تھا کہ یکم مئی تک امریکی افواج کی مکمل واپسی سمیت تمام متبادل زیر غور ہیں۔