ینگون (ڈیلی اردو) میانمار کی عدالت نے فوجی بغاوت مخالف مظاہروں کی کوریج پر امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے ایک فوٹو گرافر سمیت 5 صحافیوں پر باضابطہ طور پر فرد جرم عائد کردی۔
https://twitter.com/Calypso050616/status/1369938434152935426?s=19
واضح رہے کہ ایک ہفتے قبل میانمار کی فوج نے نیوز رومز پر چھاپے مارے تھے اور میڈیا لائسنس منسوخ کیے تھے۔
رپورٹس کے مطابق یکم فروری کو ملک میں عوامی رہنما آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کے خلاف بغاوت اور انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد سے احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں اور ہزاروں افراد جمہوریت کی واپسی کے مطالبے کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
Myanmar: From 1 feb to 13 March [10 AM], 1) 37 journalists have been arrested, 2) 5 local media’s licenses have been withdrawn, 3) 22 have been released, 4) 15 are still detained 5) 10 have been charged under 505 (A), 6) one media group has been charged under 505 (A). pic.twitter.com/EDyQbM02Di
— Kyaw Hsan Hlaing (@kyawhsanhlaing1) March 13, 2021
گذشتہ ماہ ینگون میں بغاوت مخالف مظاہرے کا احاطہ کرنے والے پانچ صحافیوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں ‘خوف پیدا کرنے، جھوٹی خبریں پھیلانے یا براہ راست یا بالواسطہ کسی سرکاری ملازم کو مشتعل کرنے’ کے الزامات کا سامنا ہے۔
CPJ calls for the immediate release of @AP journalist Thein Zaw and all other journalists detained in #Myanmar.
"Myanmar’s junta must stop detaining journalists and allow reporters to do their jobs without fear of reprisal,” said @CPJAsia's Shawn Crispin.https://t.co/qdlJzTzyB2
— Committee to Protect Journalists (@pressfreedom) March 12, 2021
میانمار کی فوجی جنتا نے بغاوت کے بعد قانون میں ترمیم کی تھی جس میں زیادہ سے زیادہ سزا دو سال سے بڑھا کر تین سال تک کردی گئی تھی۔
گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران پانچوں صحافی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے موجود تھے جن پر باضابطہ طور پر الزام لگایا گیا جبکہ امریکی سفارتخانے کے نمائندے عدالت کے باہر انتظار کرتے رہے۔
ایک صحافی تھین زاؤ ایسوسی ایٹ پریس (اے پی) کے فوٹوگرافر تھے۔
1/2 The German embassy, which represents the consular interests of Polish citizens in Myanmar, requested on Saturday that the military reveal the whereabouts of and charges against detained Polish freelance journalist Robert Bociaga, who works for CNN & Deutsche Welle. pic.twitter.com/TeRKidyMhX
— Myanmar Now (@Myanmar_Now_Eng) March 13, 2021
ان کے بھائی نے سماعت کے بعد اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے مدعا علیہ سے ملنے کے لیے اندر جانے کی اجازت ملی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں دو منٹ تک بات کرنے کا موقع ملا، تھین زاؤ آنسوؤں میں تھے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘تھین زاؤ نے بتایا ہے کہ وہ اندر اب تک خیریت سے ہیں اور ان کے بارے میں زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ان کی صحت ٹھیک ہے’۔
چار دیگر افراد میانمار کی فوٹو ایجنسی 7 ڈے نیوز، زی کیویٹ آن لائن نیوز، اور ایک فری لانسر ہیں۔