اسلام آباد (ڈیلی اردو) سپریم کورٹ نے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کے علاقے تیری میں مسمار کی گئی ہندو بزرگ کی سمادھی کا تعمیراتی کام 6 ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے متروکہ وقف املاک، کرک میں ہندو سمادھی کی توڑ پھوڑ اور ملتان کے پرلاد مندر سے متعلق کیسز کی سماعت کی۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے بتایا کہ کنٹریکٹر کام شروع کرنے والے تھے لیکن ہندو رہنما رمیش کمار نے ٹھیکیدار کو کام سے روک دیا۔
جس پر رمیش کمار نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ جس کنٹریکٹر کو ٹھیکا دیا گیا اس کے پاس صلاحیت نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سمادھی کی تعمیر ریاست کی ذمہ داری ہے ساتھ ہی انہوں نے ہندو برادری کو تعمیراتی کام میں مداخلت کرنے سے روک دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسے بندے کو ٹھیکا دیا گیا، جس کے پاس کام شروع کرنے کے پیسے نہیں، کیا اس کام میں بھی پیسہ بنانا ہے۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ سب پریشان ہیں کہ اس کام سے پیسہ کیسے کھانا ہے، بے شرمی کی کوئی انتہا ہوتی ہے، اس معاملے پر خیبرپختونخوا کے متعلقہ محکمے پر چپ کر کے بیٹھے ہیں۔
دوسری جانب ملتان کے پرلاد مندر کی بحالی سے متعلق کیس میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ مندر کی تعمیر متروکہ وقف املاک بورڈ کرے گا جس کے لیے سیکیورٹی کا مسئلہ حل کرلیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کے سامنے کوئی کھڑا نہیں ہو سکتا، چیف سیکریٹری پنجاب سے کہیں ذرا دم پکڑیں اور مندر کی بحالی کے کام کی نگرانی کریں۔
عدالت نے چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا کو سمادھی کا کام جلد شروع کرنے کی ہدایت کی اور ملتان کے پرلاد مندر کی فوری بحالی کا حکم بھی دے دیا۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے متروکہ وقف املاک اور ہندو سمادھی سے متعلق کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔
کرک واقعے کا پس منظر
واضح رہے کہ 30 دسمبر 2020 کو ایک ہجوم نے خیبرپختونخوا میں کرک کے علاقے ٹیری میں ایک ہندو بزرگ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی (مزار) کو نذرآتش کردیا تھا جبکہ اس کے کچھ حصوں کو منہدم بھی کیا تھا۔
خیال رہے کہ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کو ہندو کمیونٹی کی جانب سے مقدس سمجھا جاتا ہے اور ہندو مذہب کو ماننے والے خاص طور پر سندھ سے لوگ یہاں آتے تھے۔
واقعے سے متعلق پولیس اور مقامی لوگوں نے بتایا تھا کہ سمادھی پر حملے سے قبل ٹیری کے شنکی اڈہ کے مقام پر مذہبی رہنماؤں کا ایک اجلاس بھی ہوا تھا۔
عینی شاہدین نے بتایا تھا کہ ہجوم کی قیادت ایک مذہبی جماعت کے حمایتوں اور مذہبی رہنماؤں کی جانب سے کی جارہی تھی۔
مشتعل ہجوم کے افراد یہ نعرے لگا رہے تھے کہ وہ علاقے میں کسی مزار کی تعمیر کی اجازت نہیں دیں گے۔
بعدازاں مذکورہ واقعے کی سوشل میڈیا پر کافی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آئی تھیں جبکہ حکام نے بھی نوٹس لیتے ہوئے متعدد افراد کو گرفتار کیا تھا اور 2 مذہبی رہنما مولانا محمد شریف اور مولانا فیض اللہ سمیت متعدد نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی تھی۔
جس کے بعد 31 دسمبر کو چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے کرک میں ہجوم کے ہاتھوں ہندو بزرگ کی سمادھی نذرآتش کرنے کا نوٹس لے لیا تھا۔
خیال رہے کہ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کے معاملے پر دہائیوں قبل تنازع شروع ہوا تھا، 1997 میں اس جگہ کو مسمار کردیا گیا تھا تاہم 2015 میں سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا حکومت کو ہندو سمادھی کو بحال کرنے اور دوبارہ تعمیر کا حکم دیا تھا۔