انقرہ (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے/اے ایف پی) ترکی کی ایک عدالت نے مرکزی استنبول میں ایک خود کش دھماکے میں ملوث چار افراد کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ سن دو ہزار سولہ کے اس حملے میں بارہ جرمن سیاح ہلاک ہو گئے تھے۔
ترکی کی ایک عدالت نے چھ اپریل منگل کے روز جنوری 2016 میں استنبول میں ہونے والے خود کش حملے میں ملوث ہونے کے جرم میں چار افراد کو عمر قید کی سزا سنائی۔ اس کیس میں بعض دیگر ملزمان کو مناسب شواہد نہ ہونے کی وجہ سے بری کر دیا گیا۔
سن 2016 میں یہ خود کش حملہ استنبول کے مرکزی علاقے سلطان احمد اسکوائر پر ہوا تھا جس میں 12 جرمن سیاح ہلاک اور دیگر 16 افراد زخمی ہوگئے تھے۔ ترکی کی حکومت نے اس حملے کا الزام اسلامی شدت پسند تنظیم داعش پر عائد کیا تھا لیکن اس گروپ نے بذات خود کبھی اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
چار افراد کو عمر قید کی سزا
چار مشتبہ افراد جو پہلے سے ہی جیل میں ہیں انہیں عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ ترکی کی ایک نجی نیوز ایجنسی ڈی ایچ اے کے مطابق عدالت کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے تشدد کے ذریعہ ملک کے آئین کو پامال کرنے کی کوشش کی۔
ترکی نے سن 2002 میں اپنے ملک سے موت کی سزا ختم کر دی تھی اس لیے سب سے بڑی سزا بغیر پیرول کے عمر قید ہے۔ اس کیس میں بھی پیرول کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی انادولو کے مطابق عدالت نے قصورواروں کو دانستہ طور پر دہشت گردی کی نیت سے اقدام قتل کرنے کے لیے اضافی 328 برس قید کی سزا سنائی ہے۔
طویل عدالتی کارروائی
سن 2018 میں ترکی کی ایک عدالت نے بم حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں تین شامی شہریوں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ تاہم ایک اپیلی عدالت نے کئی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے اس فیصلے کو مسترد کر دیا تھا۔
منگل کے روز فیصلے میں سزا یافتہ افراد کی شہریت ظاہر نہیں کی گئی۔ سن 2016 میں ترکی میں کئی بم دھماکے ہوئے تھے۔ حکومت نے اس کے لیے اسلامک اسٹیٹ یا پھر کرد عسکریت پسندوں کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
اس کیس میں کل 26 افراد پر الزام تھا اور ایک ذیلی عدالت نے سن 2018 میں سبھی مشتبہ افراد کے خلاف فیصلہ سنا دیا تھا جسے ایک اپیلی عدالت نے بعض خامیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔ منگل کے روز ہونے والا یہ فیصلہ اس کیس کا آخری فیصلہ ہے۔
عدالت نے اسی کیس میں ایک شخص کو دہشت گرد تنظیم کی رکنیت رکھنے کے الزام میں چھ برس قید کی سزا سنائی ہے جبکہ دیگر 18 افراد کو ثبوت و شواہد کی کمی کی وجہ سے بری کر دیا ہے۔ دیگر تین مفرور افراد کے خلاف ان کی غیر حاضری میں مقدمہ جاری رہے گا۔