برلن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے/اے ایف پی) افغانستان میں سلامتی کی خستہ صورت حال کے مد نظر جرمنی میں پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کو’ڈیپورٹیشن فلائٹ‘ کے ذریعے ملک بدر کر دینے کا اقدام خاصا متنازع ہے۔
Jetzt am BER! 500 Leute protestieren gegen die Abschiebung nach Afghanistan und versuchen, sie zu stoppen.
@NoBorder_Berlin pic.twitter.com/x2dZ0DjQMF— Flüchtlingsrat Berlin (@fluchtlingsratB) April 7, 2021
مظاہرین بدھ کی دیر رات برلن ہوائی اڈے کے ٹرمنل پانچ پر جمع ہوئے۔ وہ پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کی درخواستوں کو مسترد کر دیے جانے اور طیارے پر سوار کر کے انہیں افغانستان روانہ کر دینے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ گر چء پہلے 50 سے 75 کے درمیان لوگوں کے جمع ہونے کی امید تھی لیکن تقریباً 350 افراد احتجاج میں شامل تھے۔
Twenty Afghan men arrive in Kabul after their deportation flight from Germany was met with protests https://t.co/JHM8XPr68o
— dpa news agency (@dpa_intl) April 8, 2021
مظاہرین نے تختیاں اٹھارکھی تھیں جن پر حکام سے ڈپورٹیشن فلائٹ کو منسوخ کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ کچھ مظاہرین نے ہوائی اڈے تک جانے والی سڑکوں کو جام کر دیا۔ مظاہرے کا اہتمام برینڈن برگ ریفیوجی کونسل نے کیا تھا۔ طیارے کے افغانستان روانہ ہونے کے بعد ہی مظاہرہ ختم ہوا۔
Twenty-six Afghan men arrived in Kabul early Wednesday on a deportation flight from Germany.
Over 1,000 Afghan asylum seekers have now been returned from Germany since 2016.https://t.co/54XS5yBuSo
— InfoMigrants (@InfoMigrants) March 10, 2021
بعد میں جمعرات کی صبح ایک جرمن طیارے کے ذریعہ بیس افغان شہری کابل پہنچ گئے۔ دسمبر 2016 میں ملک بدری کی پالیسی نافذ کیے جانے کے بعد سے یہ 38 ویں ڈیپورٹیشن فلائٹ تھی۔ اب تک مجموعی طورپر ایک ہزار 35 افغان شہریوں کو پناہ حاصل کرنے کی ان کی درخواستیں مسترد کر کے افغانستان واپس بھیجا جا چکا ہے۔
A charter plane carrying Afghan asylum seekers from Berlin will leave for Afghanistan tomorrow evening, the 7th of April. The charter will land in Afghanistan in the morning of 8th April. pic.twitter.com/Xu3X2slrJk
— AMASO (@AmasoOrg) April 7, 2021
ملک بدری کے فیصلے کی نکتہ چینی کیوں ہو رہی ہے؟
بدھ کے روز برلن میں ہونے والے مظاہرے سے چند روز قبل ہی جرمنی میں پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم پرو ایزائل (Pro Asyl) نے ملک بدر کر کے افغانستان بھیجنے کے اقدام کو روکنے کی اپیل کی تھی۔ اس تنظیم نے افغانستان میں سکیورٹی کی ابتر صورت حال کے علاوہ کووڈ انیس کی وبا کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں فی الحال ایسے حالات نہیں ہیں کہ لوگوں کو واپس جانے کے لیے مجبور کیا جائے۔
مارچ 2020 میں کورونا وائرس کی پہلی لہر کے بعد جرمنی نے افغانیوں کی ملک بدری کا سلسلہ عارضی طور پر معطل کر دیا تھا لیکن گزشتہ برس دسمبر میں اسے پھر سے بحال کر دیا۔
افغانستان کے لیے ڈیپورٹیشن فلائٹیں جرمن سیاسی جماعتوں کے درمیان بحث کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ وزیر داخلہ اور قدامت پرست جماعت کرسچن سوشل یونین کے رکن ہورسٹ سیوفر ملک بدری کی وکالت کرتے رہے ہیں لیکن گرین پارٹی کی رکن پارلیمان کلاوڈیا روتھ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جاری تشدد کی صورت حال کے مدنظر ملک بدری کا سلسلہ ختم کیا جانا چاہیے۔