اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے/بی بی سی) پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے مسلح افواج اور ان کے اہلکاروں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف 2 سال کی قید اور 5لاکھ تک کے جرمانے کی مجوزہ سزاؤں کے بل کی منظوری دیدی۔
قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف سول عدالت میں کیس چلے گا۔
امریکی خبر رساں ادارے وائس آف امریکا کے مطابق پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے افواجِ پاکستان کو بدنام کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا بل منظور کرتے ہوئے ایسے افراد کے خلاف قید اور جرمانے کی سزائیں تجویز کی ہیں۔
حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رکنِ قومی اسمبلی امجد علی خان نیازی کی جانب سے پیش کردہ اس بل کے تحت پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف ہرزہ سرائی یا ان کے کسی رکن کو ارادتاً بدنام کرنے والے فرد کو دو سال قید یا پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکے گا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے اس بل کی منظوری ایسے وقت دی ہے جب ملک میں فوج کے سیاست میں مبینہ کردار پر سیاسی، ادبی اور صحافتی حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔ تاہم فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے مختلف مواقعوں پر سیاسی کردار کی تردید کی جاتی رہی ہے۔
فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے اس بل کو ’کرمنل لا (ترمیمی) ایکٹ بل 2020‘ کا نام دیا گیا ہے جس کے ذریعے پاکستان پینل کوڈ 1860 اور کوڈ آف کرمنل پروسیجر 1898 میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔
بل کے ذریعے تعزیراتِ پاکستان کے سیکشن 500 میں ایک اور شق کا اضافہ کرتے ہوئے مجموعہ تعزیرات پاکستان اور مجموعہ ضابطہ فوجداری میں تبدیلیاں لاتے ہوئے تجویز دی گئی ہے کہ جو بھی پاکستان کی مسلح افواج کا تمسخر اڑاتا ہے، وقار کو گزند پہنچاتا ہے یا بدنام کرتا ہے وہ ایسے جرم کا قصوروار ہو گا جس کے لیے دو سال تک قید کی سزا یا پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔
یاد رہے کہ سیکشن 500 میں ہتک عزت کے خلاف سزا تو درج ہے مگر اس شِق میں مسلح افواج کا ذکر نہیں۔
تعزیراتِ پاکستان کے سیکشن 500 میں لکھا گیا ہے کہ ’جب بھی کوئی، کسی دوسرے کی رسوائی، بدنامی کا باعث بنے گا تو اسے دو سال قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
حزبِ اختلاف کی بل منظور کرنے کی مخالفت!
قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں حزبِ اختلاف کے اراکین اسمبلی کی مخالفت کے باوجود اس بل کو منظور کیا گیا ہے۔
اپوزیشن اراکین کی جانب سے بل کی مخالفت کرنے پر چیئرمین کمیٹی نے رائے شماری کرائی تو ووٹ برابر ہو گئے، جس پر راجہ خرم نواز نے اپنا ووٹ حق میں دیتے ہوئے بل کو منظور قرار دیا۔
حزبِ اختلاف کے اراکین کا مؤقف تھا کہ یہ قانون غیر ضروری اور مروجہ قوانین سے متصادم ہے اور اسے سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جاسکتا یے۔
پیپلز پارٹی کے آغا رفیع اللہ نے کہا کہ یہ قانون سیاسی انتقام کے لیے استعمال ہو گا اور اداروں پر نیک نیتی سے کی گئی تنقید بھی اس قانون کے دائرے میں آئے گی۔
مسلم لیگ (ن) کی مریم اورنگزیب نے قانونی بل کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہتک عزت اور آزادئِ اظہار کے قانون کی موجودگی میں نیا قانونی بل لانا اداروں کو متنازع بنانا ہے۔
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ مسلح افواج اور اس کے اہلکاروں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف قید اور جرمانے کی سزائیں تجویز کرنے والی قانون سازی کی مخالفت کی ہے۔ انھوں نے سینیئر صحافی مظہر عباس کے ایک ٹویٹ پر بحث کرتے ہوئے ایک حکومتی رکن قومی اسملبی کی طرف سے پیش کردہ اس بل پر لکھا کہ ’عزت کمائی جاتی ہے، مسلط نہیں کی جاتی۔‘
absolutely ridiculous idea to criminalise criticism, respect is earned, cannot be imposed on people, I strongly feel instead of new such laws Contempt of Court laws should be repealed …. https://t.co/iKMuaK6gwU
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) April 8, 2021
اس بل کو پیش کرنے والے رکن اسمبلی امجد علی خان کا کہنا تھا کہ قانون میں 500 اے کی شمولیت کسی دوسرے قانون سے متصادم نہیں اور اس قانون کے تحت افواج پاکستان کا دانستہ تمسخر اڑانے والے پر سول عدالت میں کیس چلے گا۔
قائمہ کمیٹی میں وزارتِ قانون کے نمائندے نے مجوزہ بل کی مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ آئین کے آرٹیکل 19 میں ہر شخص کو آزادئِ اظہار کا حق حاصل ہے مگر ایسے قانون کے ذریعے اظہارِ رائے کو ریگولیٹ کیا جاسکے گا۔
وزارتِ قانون کے نمائندے کا کہنا تھا کہ اس مجوزہ قانون کے متوازی غداری کا کیس ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومت دائر کرتی ہے۔
‘فوج پر تنقید نہیں، تضحیک کو روکنا مقصد ہے’
اس بل کو پیش کرنے والے امجد علی خان نیازی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ کوئی غیر معمولی بل نہیں۔ کیوں کہ بدلتے حالات کے ساتھ اداروں کے احترام کا قانون بھی ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کے پاس استحقاق کا حق ہے، عدلیہ کے پاس توہینِ عدالت کا اختیار ہے تو ملکی دفاعی اداروں کی دانستہ تضحیک کرنے والوں کو بلا روک ٹوک نہیں چھوڑا جاسکتا۔
ان کے بقول اس بل کا ملک کے حالیہ سیاسی حالات سے تعلق نہیں کیوں کہ یہ قانون ایک سال پہلے پیش کیا گیا تھا اور اسے قانون بننے میں ابھی مزید وقت لگے گا۔
اس قانون کی عمل داری اور تشریح کے سوال پر امجد نیازی کہتے ہیں کہ سول عدالتوں اور ریاستی اداروں کے ذریعے اس قانون پر عمل درآمد ہو گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس قانون کا مقصد اداروں پر تنقید کا سدِباب نہیں بلکہ اداروں کی ارادتاً تضحیک کو روکنا ہے۔
امجد علی خان کے مطابق فوج پر تنقید اور اس کی تضحیک میں فرق ہے، تنقید پر پابندی نہیں لیکن وہ الفاظ جو قابلِ اعتراض ہیں جن کے ذریعے تمسخر اڑایا جائے وہ قابلِ تعزیر قرار پائے جانے چاہئیں۔
یاد رہے کہ امجد علی تحریک انصاف کے رکن اسمبلی اور قائمہ کمیٹی دفاع کے چیئرمین ہیں لیکن انہوں نے یہ بل پرائیویٹ ممبر کے طور پر جمع کرایا ہے۔
پرائیویٹ ممبر بل سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ پیش کرنے والے رکنِ پارلیمان کو اس بل کی حد تک ان کی جماعت کی حمایت حاصل نہیں۔
اکثر اراکین حکومت کو کسی مسئلے کی جانب متوجہ کرنے کے لیے پرائیویٹ ممبرز ڈے پر بل اور قراردادیں ایوان میں پیش کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ برس صرف ستمبر کے ہی مہینے میں ایسے الزامات کے تحت بعض صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
ان میں سینیئر صحافی اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے سابق چیئرمین ابصار عالم بھی شامل ہیں جن کے خلاف پنجاب پولیس نے پاکستان فوج کے خلاف اکسانے کا مقدمہ درج کیا جبکہ ان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست بھی دی گئی۔
اس سے پہلے کراچی میں صحافی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر متحرک بلال فاروقی کے خلاف پاکستان آرمی کے خلاف بغاوت پر اکسانے اور مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
جبکہ اس کے بعد راولپنڈی کی پولیس نے سوشل میڈیا پر پاکستانی اداروں بالخصوص فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے، پوسٹس اور تبصرہ کرنے کے الزام میں صحافی اسد علی طور کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا۔