اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آئین پر عمل درآمد نہیں ہوا اور ہر آنے والا شخص آئین کو اپنی مرضی کے مطابق ادھر لے جاتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ حلف کی خلاف ورزی غداری کے ذمرے میں آتی اور قانون میں اس کی سزا موت ہے۔
وہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے ‘اسلام میں بنیادی حقوق اور ہمارا آئین’ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان میں بہت سارے آئین آئے اور گئے، ہم نے بہت کچھ سیکھا مگر صرف آئین نہیں سیکھ سکے۔’
انھوں نے کہا کہ پاکستانی آئین کی قومی زبان میں تشریح ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان قائداعظم نے بنایا وہ دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک تھا جبکہ آج پاکستان نصف ہے کیونکہ مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو گیا ہے۔ مشرقی پاکستان میں یہاں سے دگنے لوگ تھے۔ آج ہم تیسرے نمبر پر آ گئے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا ‘ہم پر یہ اس لیے گزری کیونکہ ہم نے آئین پر عمل نہیں کیا۔ لوگوں کی ہوس نے آئین کو ٹھکرایا اور آئین کا تحفظ کرنے والوں نے قسم توڑی!‘
تقسیمِ پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس فائز عیسی کا کہنا تھا کہ ‘یہ آئین پر عمل کرنے کی قسم کھانے والوں کی ذمہ داری تھی۔ ہمیں حقیقت سے نظریں نہیں چرانی چاہئیں۔’
آئین شکنی غداری ہے
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر ذمہ دار عہدے پر کام کرنے والا فرد آئین پر حلف اٹھاتا ہے جس کی پاسداری ان پر فرض ہے کیونکہ ہم نے قسم کھائی ہے۔
سپریم کورٹ کے جج نے آئین شکنی کے مضمرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ’اگر ہم آئین شکنی کریں گے تو یہ غداری کے زمرے میں آئے گا۔ اگر آئین کو ہٹا دیں تو وفاق بھی ٹوٹ جاتا ہے اور پاکستانیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔’
انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’آئین کا تحفظ کرنا ہر پاکستانی پر لازم ہے اس لیے اس کا تحفظ کریں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے آئین پر لیے جانے والے حلف کی پاسداری کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’اگر حلف پر پوری طرح عمل نہیں کریں گے تو مسئلے بڑھتے جائیں گے۔ ہر صاحب اختیار، مجھ سمیت جس نے بھی حلف اٹھایا، اس پرآئین کی پاسداری لازم ہے۔‘
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ دنیا آگے بڑھ گئی ہے اور ہم آج تک آئین کے تحفظ میں ہی لگے ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ‘ایک صاحب آتے ہیں وہ آئین کو ادھر کر دیتے ہیں اور ایک صاحب آتے ہیں وہ آئین کو ادھر کر دیتے ہیں ہم انہیں یہی سمجھاتے جا رہے ہیں کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے آپ غداری کر رہے ہیں۔’
‘پچاس سال ہونے کو ہیں اس لیے وقت آ گیا ہے کہ کچھ بنیادی چیزیں سیکھیں اور سکھائیں۔’
انھوں نے واضح کیا کہ آئین قران اور اسلامی قوانین سے متصادم ہر گز نہیں۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کے آئین میں شہریوں کو براہ راست متاثر کرنے والی محض دو درجن شقیں ہیں لیکن پھر بھی انہیں آئین کے محافظ ہونے کا احساس دلایا جانا چاہیے۔
جسٹس فائز عیسی کا کہنا تھا کہ ‘ہر پاکستانی آئین کا اسی طرح محافظ ہے جس طرح پاکستانی افواج آئین کے محافظ ہیں جو اسی آئین پر حلف اٹھاتی ہیں۔’
ان کا کہنا تھا اگرچہ عام آدمی نے تو حلف بھی نہیں اٹھایا ہوا لیکن انہیں بھی آئین کا محافط بنائیں کیونکہ اس میں اس کے اپنے حقوق محفوظ ہیں۔ ‘ان حقوق پر کوئی حملہ کرے تو وہ اسے عدالت اور جج کے سامنے کا راستہ دکھائیں گے۔’
اقلیتوں کا تحفظ
جسٹس فائز عیسیٰ نے آئین کے تحفظ کی اہمیت کے حوالے سے کہا کہ یہ اس لیے ضروری ہے کیونکہ آئین سب کو تحفظ دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا آئین میں 280 شقیں ہیں، دو درجن دفعات عوام کے حقوق کے تحفظ سے متعلق ہیں۔
انھوں نے چند قانونی دفعات کی تفصیل بھی بتائی۔ ان کا کہنا تھا ’یہ دو درجن دفعات ہر شہری سمجھ لے جو ان کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں، دفعہ چار یقینی بناتی ہے کہ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو، دفعہ نو کہتی ہے قانون کی اجازت کے بغیرکسی کو زندگی اور آزادی سے محروم نہ کیا جائے گا۔‘
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ’آئین میں کہا گیا ہے کہ اقلیتوں کو زندگی جینے کے مکمل مواقع دیے جائیں گے۔‘
آئین کی تعلیم
جسٹس فائز عیسیٰ نے آئین سے متعلق عوامی آگہی پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین پڑھنا بہت ضروری ہے کیونکہ پڑھ کر ہی ہمیں معلوم ہو گا کہ پاکستان کیسے وجود میں آیا۔‘
انھوں نے آئین کو سمجھنے کی ضرورت کے موضوع پر کہا کہ ‘ہم نے آئین نہیں سیکھا، ہم نے آئین کا ترجمہ نہیں سیکھا۔ آئین انگریزی زبان میں لکھا گیا اور اس کی تشریح بھی انگریزی زبان میں ہے۔’
انھوں نے کہا کہ آئین کا نہ صرف اردو زبان میں ترجمہ کیا جانا چاہیے بلکہ اس کی تعلیم بھی دی جانی چاہیے۔
‘ہم نے آئین کو بھی قرآن کی طرح خوبصورت غلاف میں بند کر کے رکھ دیا ہے اور اسے پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔’
تاہم انھوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’مجھے نہیں لگتا کہ کسی بھی سکول میں آئین پاکستان پڑھایا جاتا ہے۔‘
اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ امریکی سکولوں میں آئین سکھایا جاتا تھا تاکہ کم عمر سے ہی طلبا کو آئین کا معلوم ہو۔‘