تہران (ڈیلی اردو/بی بی سی) ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ اُن کا ملک نطنز کی جوہری تنصیب پر ہونے والے حملے کا انتقام لے گا۔ ایران نے اس حملے کے لیے اسرائیل کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔
اس سے قبل ایران میں جوہری توانائی کی ایجنسی کا کہنا تھا کہ ملک کی ایک اہم جوہری تنصیب کو سبوتاژ کیا گیا ہے۔ صرف ایک روز قبل یہاں یورینیم کی افزودگی کے لیے نئے ساز و سامان کی رونمائی کی گئی تھی۔
ایجنسی کے سربراہ علی اکبر صالحی نے اس ’دہشت گرد‘ حملے کا الزام فی الحال کسی پر عائد نہیں کیا ہے مگر یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ اس سے جنوبی تہران میں واقع نطنز جوہری تنصیب کو بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی میڈیا نے انٹیلیجنس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل نے اس تنصیب پر سائبر حملہ کیا ہے۔ اب تک سرکاری سطح پر اسرائیل نے اس واقعے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ گذشتہ دنوں اسرائیل نے ایران کے جوہری منصوبے کے حوالے سے تنبیہ جاری کی تھی۔
ایرانی خبر رساں ادارے ’نور نیوز‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ نطنز جوہری تنصیب کے واقعے میں ملوث ‘مرکزی ذمہ داران’ کی تصدیق ہو چکی ہے اور اُن کی گرفتاری کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل سے وابستہ نور نیوز نے انٹیلیجنس کی وزارت کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کا کہا ہے کہ ’اس شخص کی شناخت کر لی گئی ہے جس کی وجہ سے جوہری مرکز میں بجلی کی فراہمی کا نظام بند ہوا تھا۔‘
خیال رہے کہ ایران کے ساتھ سنہ 2015 کے جوہری معاہدے کو دوبارہ نئی شکل دینے کی سفارتی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ امریکہ کی سابقہ ٹرمپ انتظامیہ نے سنہ 2018 میں اس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔
سنیچر کو ایرانی صدر حسن روحانی نے نطنز پر قائم مرکز کے لیے نئے سینٹری فیوجز متعارف کرائے تھے اور اس حوالے سے ٹی وی پر خصوصی نشریات بھی چلائی گئی تھی۔ سینٹری فیوج جوہری مرکز کے ایسے سامان کو کہتے ہیں جس کی مدد سے یورینیم کی افزدوگی کی جاتی ہے۔ اسے جوہری ہتھیار بنانے اور بجلی پیدا کرنے جیسے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ایران کا یہ نیا اقدام سنہ 2015 کے معاہدے کی ایک اور خلاف ورزی تھی جس میں ایران کے لیے کمرشل پاور پلانٹ کے ذریعے یورینیم کی افزودگی اور پیداوار پر ایک بالائی حد مقرر کی گئی۔
ایجنسی کے سربراہ علی اکبر صالحی نے اس ’دہشت گرد‘ حملے کا الزام فی الحال کسی پر عائد نہیں کیا ہے
اتوار کو ایران کی اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے ترجمان بہروز کمالوندی نے کہا کہ یہ واقعہ صبح کے وقت پیش آیا اور اس حملے کے نتیجے میں یہاں بجلی کا نظام متاثر ہوا ہے۔
انھوں نے مزید معلومات فراہم نہیں کی ہیں اور کہا ہے اس واقعے میں کسی کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے اور نہ ہی کسی نوعیت کا مواد لیک نہیں ہوا۔
اس کے بعد ادارے کے سربراہ علی اکبر نے اسے ’سبوتاژ کرنے‘ اور ’جوہری دہشت گردی‘ قرار دیا۔
ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ ’ایران نے عالمی برادری اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی پر زور دیا ہے کہ جوہری دہشتگردی سے نمٹنے کی کوشش کی جائے۔‘
’ایران کو یہ حق دیا جانا چاہیے کہ وہ اس واقعے میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی کر سکے۔‘
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے کہا ہے کہ وہ ان اطلاعات سے واقف ہیں تاہم ادارے نے اس پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا ہے۔
گذشتہ جولائی کے دوران ایک تخریب کاری کی کارروائی کے بعد آگاہ کیا گیا تھا کہ نطنز کے مرکز پر آگ لگی تھی جس سے سینٹرل سینٹری فیوجز اسمبلی ورکشاپ متاثر ہوئی ہے۔
اسرائیل کیسے ملوث ہوسکتا ہے؟
اسرائیل کے سرکاری نشریاتی ادارے نے نامعلوم انٹیلیجنس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک اسرائیلی سائبر آپریشن کے نتیجے میں وہاں بجلی کی فراہمی کا نظام خراب ہوا۔
ہارٹز اخبار نے بھی کہا کہ ممکن ہے کہ ایران کی جوہری تنصیب پر اسرائیل نے سائبر حملہ کیا۔
وائے نیٹ نیوز ویب سائٹ کے لیے دفاعی تجریہ کار رون بین یشائی نے کہا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار کی صلاحیت کی طرف قدم بڑھا رہا ہے اور یہ ’ماننا درست ہو گا کہ یہ مسئلہ کسی حادثے کی وجہ سے پیش نہیں آیا بلکہ جان بوجھ کر سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے تاکہ امریکہ کی جانب سے پابندیوں پر مذاکرات اور جوہری دوڑ کی رفتار کم کی جا سکے۔‘
اتوار کو اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو نے کہا کہ ایران، اس کی پراکسی قوتوں اور ایران کی ہتھیار جمع کرنے کی کوششوں کے خلاف یہ ایک بڑا مشن ہے۔‘
واقعے کا حوالہ دیے بغیر ان کا کہنا تھا کہ ’حالات آج جیسے ہیں ضروری نہیں کہ کل بھی ویسے ہی ہوں گے۔‘
جوہری معاہدہ کیوں ختم ہوا تھا؟
امریکہ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران ختم کر دیا تھا اور اس کے بعد ایران پر معاشی پابندیاں دوبارہ عائد کر دی گئی تھیں۔
لیکن اس معاہدے کو دوبارہ کسی شکل میں طے کرنے کے لیے بائیڈن انتظامیہ کوششیں کر رہی ہے۔ تاہم نتن یاہو نے متنبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل اس نئے معاہدے میں کسی قسم کا حصہ دار نہیں ہو گا۔
جوہری معاہدے کے تحت ایران یورینیم کی محدود افزودگی اور پیداوار کر سکتا ہے اور شرائط میں افزودگی کی شرح کو 3.67 فیصد رکھا گیا تھا۔ 90 فیصد افزودگی میں یورینیم کو جوہری ہتھیاروں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کے بارے میں کہا تھا کہ یہ اس مفروضے پر کیا گیا ہے کہ ایک ’قاتل حکومت‘ جوہری توانائی پُرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ معاہدہ ختم کرتے ہوئے ایران پر مزید سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
ایران کا کہنا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا لیکن امریکہ کی طرف پابندیوں کے بعد ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر کام دوبارہ شروع کر دیا تھا۔
ایران نے سنہ 2015 کے معاہدے کے تحت جن شرائط کی پاسداری کرنے کا یقین دلایا تھا، ان سے بتدریج انحراف کرنا شروع کر دیا تھا۔ ملک میں یورینیم کی افزودگی کی شرح 20 فیصد تک جا پہنچی ہے۔