نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کی سپریم کورٹ نے قرآن سے 26 آیات حذف کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے درخواست گزار کو 50 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
بھارتی اخبار ‘دی ہندو’ کے مطابق جسٹس روہنتن نریمان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پیر کو سماعت کے دوران اُتر پردیش کے شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی کی درخواست کو ‘بیہودہ’ قرار دے کر مسترد کر دیا۔
وسیم رضوی نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ قرآن میں 26 ایسی آیات ہیں جو دہشت گردی پھیلانے کا باعث بنتی ہیں اور دہشت گرد تنظیمیں جہاد کو فروغ دینے کے لیے مبینہ طور پر ان آیات کا استعمال کرتی ہیں۔
اس متنازع درخواست پر بھارت میں مسلمانوں کی جانب سے احتجاج اور وسیم رضوی کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔
مذکورہ درخواست دائر کرنے پر بھارت کے قومی اقلیتی کمیشن نے وسیم رضوی کو غیر مشروط معافی مانگنے کا نوٹس جاری کیا تھا۔
کمیشن کے نوٹس میں کہا گیا تھا کہ قرآن کی آیات کے سلسلے میں وسیم رضوی کا بیان انتہائی اشتعال انگیز، قابلِ اعتراض، بدنیتی پر مبنی اور امن و امان کے لیے خطرناک ہے۔
بھارت میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بھی وسیم رضوی کی اس درخواست سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔
مسلم تنظیموں اور دیگر جماعتوں کا خیر مقدم
بھارت کی مسلم تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ امید افزا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے سے اپنے مقام اور اپنی حیثیت کا اظہار کیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ قرآن ایک آسمانی کتاب ہے جس میں کسی بھی طرح کی ترمیم یا کوئی آیت حذف کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
مہاراشٹرا سے حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی کے صدر و سابق وزیر نسیم خان نے مطالبہ کیا کہ وسیم رضوی کو فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے جرم میں دفعہ 153 اے کے تحت فوراً گرفتار کیا جائے۔
نسیم خان نے کہا کہ وسیم رضوی اسلام و مسلمانوں کے خلاف مسلسل بیان بازی کرتے ہیں اور انہیں بعض شرپسند عناصر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
وسیم رضوی کون؟
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق وسیم رضوی کو وزیرِ اعلیٰ مایاوتی کے دورِ حکومت میں اترپردیش کے شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا تھا۔ ان پر وقف کی زمینیں غیر قانونی طور پر فروخت کرنے اور کروڑوں روپے کی بدعنوانی کے الزامات ہیں جس پر ان کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہیں۔
مقامی سیاسی کارکنوں کے مطابق مایاوتی حکومت کے بعد جب اُتر پردیش میں اکھلیش یادھو کی سماج وادی پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو وسیم رضوی سماج وادی پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔
ریاست میں جب یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت اقتدار میں آئی تو وسیم رضوی نے ہندوتوا کے حق میں اور مسلمانوں کے خلاف بیانات دینا شروع کر دیے۔
قرآن کی آیات کو حذف کرنے کی درخواست سے قبل بھی وسیم رضوی اپنے متنازع بیانات اور اعلانات کی وجہ سے تنازعات کا حصہ رہے ہیں۔
سپریم کورٹ میں 26 قرآنی آیات کو حذف کرنے کی درخواست دائر کرنے پر بھارت کے کئی مسلم رہنماؤں کا کہنا تھا کہ وسیم رضوی نے ملک میں فتنہ پھیلانے کی جو کوشش کی ہے اس کی وجہ سے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔
مجلس علمائے ہند کے جنرل سیکریٹری اور معروف شیعہ عالمِ دین مولانا کلبِ جواد نقوی کے بقول وسیم رضوی اسلام دشمن ہیں اور ان کا شیعہ مسلک سے کوئی تعلق نہیں۔
اُن کے بقول، “وسیم رضوی متعصب اداروں اور اسلام دشمن تنظیموں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں اور فرقہ واریت بھڑکانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔”
البتہ، وسیم رضوی اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔