اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کی طرف سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے معاملے پر نظرثانی کی اپیل کی سماعت کے دوران اُس وقت غیر معمولی صورتحال پیدا ہو گئی جب عدالتِ عظمیٰ کے تین جج صاحبان آپس میں الجھ پڑے۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں وکیل اور جج کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ تو ہوتا رہتا ہے لیکن ججز کے اور بلخصوص پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے ججز کے درمیان آپس میں سخت جملوں کے تبادلے کی مثالیں نہیں ملتیں۔
ہوا کچھ یوں کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے بارے میں عدالتی فیصلے کے خلاف مذکورہ جج کی طرف سے نظرثانی کی اپیل پر سماعت جاری تھی اور ایڈشنل اٹارنی جنرل عامر الرحمان دلائل دے رہے تھے کہ بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے سرکاری وکیل کو ہدایت کی کہ وہ اپنے دلائل مختصر رکھیں تاکہ اس معاملے کو جلد نمٹایا جا سکے۔
انھوں نے کہا کہ وہ دوسرے فریق کو بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ اپنے دلائل کو مختصر رکھیں۔
جسٹس مقبول باقر اپنی بات کر رہے تھے کہ اس موقع پر اس دس رکنی بینچ کے رُکن جسٹس منیب اختر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان سے کچھ سوال پوچھنا چاہ رہے ہیں، جس پر جسٹس مقبول باقر نے جسٹس منیب اختر کی طرف دیکھ کر کہا کہ وہ ان کی بات میں مداخلت نہ کریں۔
جسٹس منیب اختر نے کسی جج کا نام لیے بغیر کہا کہ یہاں پر کوئی ریس تو نہیں لگی ہوئی کہ جلد از جلد ختم کرنا ہے بلکہ دوسرے کا مؤقف بھی سُننا چاہیے۔
یہ بات سُن کر جسٹس مقبول باقر غصے میں آ گئے اور ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کسی سینئر جج کی بات میں مداخلت کا یہ طریقہ کار درست نہیں ہے۔
اس پر بینچ میں شامل جسٹس سجاد علی شاہ بھی میدان میں کود پڑے اور انھوں نے ریمارکس دیے کہ یا تو وکیل کو سُنا جائے اور اگر وہ التوا مانگ رہے ہیں تو ان کو التوا دیا جائے لیکن وکیل کو بار بار ٹوکا نہ جائے۔
انھوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو وہ بینچ سے اٹھ جائیں گے جس پر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ اٹھ کہ وہ بھی جا سکتے ہیں اور یہ کہہ کر جسٹس مقبول باقر اُٹھ کر چلے گئے جس کی وجہ سے نطرثانی کی درخواست کی سماعت میں کچھ دیر کے لیے وقفہ کر دیا گیا۔
جسٹس مقبول باقر، جسٹس منیب اختر اور جسٹس سجاد علی شاہ سے سینیئر جج ہیں اور تینوں کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔
واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں جسٹس مقبول باقر نے یہ معاملہ ایف بی آر میں بھیجنے کی مخالفت کی تھی جبکہ جسٹس منیب اختر اور جسٹس سجاد علی شاہ اس اکثریتی بینچ کے فیصلے کا حصہ تھے جنھوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہلخانہ کا معاملہ ایف بی آر میں بھیجنے کا فیصلہ دیا تھا۔
نظرثانی کی ان درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر کا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ بھی تلخ جملوں کا تبادلہ ہو چکا ہے لیکن یہ معاملہ بحثیت وکیل اور جج کا تھا کیونکہ جج قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کی اس اپیل میں ذاتی حیثیت میں دلائل دے رہے ہیں۔
جسٹس منیب اختر کا ان اپیلوں کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ سے بھی تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا تاہم بعدازاں جسٹس منیب نے اس پر ان سے معذرت بھی کی تھی۔
جمعرات کے روز اس واقعے کے دس منٹ کے بعد جب کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تو بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جب آپ تازہ پانی نہ پی سکیں تو تازہ ہوا میں سانس بھی کافی ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ روزہ سے ہونے کی وجہ سے وہ تازہ ہوا میں سانس لے کر آئے ہیں۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ اگر ان کی کوئی بات جسٹس مقبول باقر کو بُری لگی ہے تو وہ اس پر معذرت خواہ ہیں جس پر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ان کی کوئی بات بُری نہیں لگی۔
بینچ کے سربراہ نے جسٹس مقبول باقر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بینچ کی محبوبہ ہیں جس پر کمرہ عدالت میں ایک قہقہ بلند ہوا۔
سماعت کے دوران درخواست گزار جسٹس فائز عیسیٰ نے بار بار مداخلت کی کوشش کی تو جسٹس منظور ملک نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بار بار مداخلت سے اجتناب کریں اور اپنی سیٹ پر بیٹھ جائیں۔
عدالت نے سرکاری وکیل کو 23 اپریل تک اپنے دلائل مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ جسٹس مقبول باقر درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے صدارتی ریفرنس کی کارروائی براہ راست دکھانے کی درخواست پر ان کا مؤقف تسلیم کرنے والے چار ججز میں شامل تھے جن میں دیگر جج صاحبان جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منظور ملک اور جسٹس مظہر عالم خان شامل ہیں۔