کراچی (ڈیلی اردو) متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے میں گرفتار تمام 26 کارکنان کو باعزت بری کردیا گیا۔
گیارہ مارچ 2015 کو ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر سندھ رینجرز نے چھاپہ مارا تھا، اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد رکھنے کےالزام پر 26 ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔ کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت سینٹرل جیل نے 6 سال بعد نائن زیرو آپریشن کے 54 سے زائد مقدمات کا فیصلہ سنا دیا۔
تفصیلات کے مطابق کراچی سینٹرل جیل میں انسداد دہشتگردی کمپلیکس میں خصوصی عدالت نے 6 سال بعد فیصلہ سنا دیا، عدالت نے دھماکہ خیز مواد کے مقدمے میں ایم کیو ایم مرکز 90 سے گرفتار 26 کارکنان کو باعزت بری کردیا جب کہ اسلحہ ایکٹ کے مقدمے میں 26 میں سے 13 ملزمان کو عدالت نے سزا سنائی۔
اسلحہ ایکٹ کے مقدمے میں فرحان شبیر عرف ملا، عبید عرف کے ٹو اور محمد عابد کو 8، 8 سال سزا جب کہ 30، 30 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔
فیصل عرف موٹا کو 10 سال سزا اور 50 ہزار جرمانہ، عامر علی عرف سرپھٹا، محمد جاوید، محمد عامر عرف توتلا، محمود حسن اور متیاز حسین، سید کاظم رضا رضوی، عبد القادر، ندیم احمد اور محمد شکیل عرف بنارسی کو 6 ، 6 سال قید جب کہ 10 ، 10 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔
عدالت نے ملزمان کو 382 بی کا فائدہ دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ وہ جتنا عرصہ جیل میں رہے ہیں وہ سزا میں شامل ہوگا، اسلحہ ایکٹ میں نادر شاہ، محمد فیضان، محمد نعمان، سید حسیب الرحمان، محمد وجیہ الرحمان، سید ممتاز حسین، محمد زبیر عرف برگر، محمد آصف، ساجد علی، محمد نعیم عرف گڈو، رضوان علی، محمد فیضان اور توفیق عرف توفیق احمد کو باعزت بری کردیا۔ مقدمے میں 10 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے۔
تحریری فیصلہ
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر 16 نے مقدمات کا تحریری فیصلے جاری کردیا جس میں عدالت نے کہا کہ استغاثہ نے ملزمان کے قبضے سے رائفل گرنیڈ کی برآمدگی کا دعویٰ کیا، شواہد سے پتا چلتا ہے کہ نائن زیرو، خورشید میموریل ہال یا کسی ملزم سے لانچر برآمد نہیں ہوا، سوال پیدا ہوتا ہے بغیر لانچر کے رائفل گرنیڈ کوئی کیوں رکھے گا؟ استغاثہ کے گواہ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے رکن نے تصدیق کی کہ بغیر لانچر رائفل گرنیڈ استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
عدالت نے کہا کہ بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد ہونے کے باوجود نائن زیرو سے کوئی بارودی مواد برآمد ہوا ناں ہی خورشید میموریل ہال سے مزید رائفل گرنیڈ ملے، دھماکا خیز مواد کی برآمدگی کے مقدمات میں ملزمان کو شک کا فائدہ پہنچتا ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت پیش کردہ شواہد اور دیگر مواد پر کام کرتی ہے، اگر پولیس یا کوئی اور ادارہ اپنا کام ٹھیک سے انجام نا دے تو عدالت کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا، ملزمان کے گواہ ڈاکٹر فاروق ستار نے خورشید میموریل ہال سے برآمد بڑی مقدار میں اسلحے کے لائسنس پیش کیے۔
عدالت نے کہا کہ محکمہ داخلہ سے تصدیق کے بعد پایا گیا کہ 62 ہتھیار لائسنس یافتہ تھے جب کہ خورشید میموریل ہال سے 98 ہتھیار برآمد کیے گئے اور 14 ہتھیار ملزمان کے قبضے سے ملے، استغاثہ نے مقدمے کے کسی بھی مرحلے پر لائسنس کے حامل افراد کو مقدمے میں شامل کرنے کی کوشش نہیں کی، اگر لائسنس کا حامل فرد اسلحہ کسی غیر قانونی اقدام کے لیے فراہم کرے تو سندھ آرمز ایکٹ کی دفعہ 24 کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ 16 جولائی 2015 کو بھی رینجرز نے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ مارا تھا۔
اس چھاپے میں رینجرز نے وہاں سے’سزا یافتہ ٹارگٹ کلرز‘ کی گرفتاری اور غیر قانونی اسلحے کی برآمدگی کا دعویٰ کیا تھا۔