کراچی (ڈیلی اردو) جمعیت علمائے اسلام ( ف ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ہم خیالات کی دنیا کی جانب جارہے ہیں۔ چین ہم سے اس وقت سخت ناراض ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں کشمیر سے ہاتھ دھونا پڑیگا، سی پیک پر بلوچستان کے عوام کے تحفظات ہیں ، فضل الرحمن
ہماری 70 سالہ دوستی جو اقتصادی دوستی میں تبدیل ہوئی تھی اس پر پانی پھیر دیا ہے۔ سی پیک پر بلوچستان کے لوگوں کو تحفظات ہیں۔
سی پیک کا اصل راستہ کاشغر سے گوادر تک کا مغربی روٹ تھا۔ جب تک نئے انتخاب نہیں ہوں گے ملک میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ملکی حالات ایسے نہیں ہیں کہ ازسر نو آئین سازی کی جائے۔اگر ملک اور آئین کو نہ سنبھالا گیا تو جغرافیائی مسائل پیدا ہوں گے۔
حکمرانوں پر بین الااقومی دباؤ بڑھ چکا ہے اور عام آدمی حالات سے پریشان ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ کھیل کھیل رہا ہے۔نیب سیاست دانوں کو بلیک میل کرنے کے لئے بنایا گیا ہے یہ ادارہ ملکی معیشت کے لئے زہر قاتل ہے۔
جو ملک کو قرضوں سے نجات کی نوید سناتے تھے ،وہ قرضہ لینے کے چمپئین بن گئے ہیں۔اسرائیل کی تسلیم کرنے کی صورت میں ہمیں کشمیر سے دستبردار ہونا پڑے گا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی پریس کلب کے پروگرام میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔میٹ دی پریس پروگرام میں پریس کلب جوائنٹ سیکر یٹری حنیف اکبر نے استقبالیہ کلمات کہے اور صدر پریس کلب امتیاز خان فاران نے مولانا فضل الرحمن سے اظہار تشکر کیا۔ اس موقع پر مولانا فضل لراحمن اور دیگر رہنماؤں کو پریس کلب کی جانب سے پھول اوراجرک کا تحفہ پیش کیا گیا۔
میٹ دی پریس پروگرام میں جمعیت علماء اسلام ( ف ) سندھ کے سیکر یٹری جنرل مولانا راشد محمود سومرو، قاری محمد عثمان، اسلم غوری،مولانا ناصر محمود سومرو اور دیگر نے بھی شرکت کی۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ملک آج جن حالات سے گزر رہا ہے اس دور میں سیاست اور صحافت قابل رحم ہے۔اس وقت صحافت پر قدغن لگی ہوئی ہے اوراور صحافیوں کی جو ذمہ داریاں ہیں اس پر آمرانہ سوچ کی تلوار لٹک رہی ہے۔صحافیوں کا معاشی قتل ہورہا ہے۔
جہاں جمہوریت ہوتی ہے وہاں سیاست اور صحافت بھی ہوتی ہے آمریت اور بادشاہت کے دور میں سیاستا ور صحافت بھی نہیں وہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل صحافیوں نے غلطی کی اس کا انہیں اعتراف کر لینا چاہیے کیونکہ دوسری جانب کی احمقانہ باتوں کو وڑن اور سوچ کا نام دیا جاتا رہااور اب کیا ثابت ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں معاشی قتل ہورہا ہے۔
ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا کہا گیا لیکن چند ماہ میں مختلف اداروں میں ہزاروں ملازمین کو فارغ کر دیا۔ 50 لاکھ گھر تقسیم کرنے کا کہا لیکن لوگوں کے گھروں کو گرا دیا گیا۔ تجاوزات کے نام پر سب سے زیادہ کراچی میں لوگوں کے گھروں کو گرایا گیا اور شہر وں کو مسمار کیا جاراہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت یومیہ 15 ارب روپے کے قرضے لے رہی ہے جوملک کو قرضوں سے نجات کی نوید سناتے تھے وہ قرضہ لینے کے چیمپئن گئے ہیں۔
ڈالر جوایک مستحکم پوزیشن پر موجود تھا وہ 140 کا ہوگیا۔آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ کھیل کھیل رہا ہے۔ ہماری درآمدات بڑھ گئی ہیں۔موجودہ حکمرانوں میں ایک محلہ اور گلی چلانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کردیا گیا ہے۔
فضل الرحمن نے کہا کہ نیب کو امرت دھارا سمجھا جا رہا ہے حالانکہ نیب معیشت کے لیئے زہر قاتل ہے، قومی احتساب بیورو کا ادارہ سیاستدانوں سے انتقام لینے کیلیے بنایا گیا تھا، جب تک نیب کی یہ روش رہے گی کوئی سرمایہ کاری کرے گا نہ کوئی آئے گا، کوئی بیوروکریٹ بھی کسی فائل کوہاتھ نہیں لگارہا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں فرد کونہیں منصب کو دیکھنا چاہیے۔اسپیکر سند ھ اسمبلی کی اہلیہ جو پیر شاہ مردان شاہ المعروف پیر صاحب پگارا کی صاحبزادی بھی ہیں ان سے بندوق کے زور پر پوچھ گچھ کی گئی۔ہمیں اب نیب سے اپنی عزت بچانی ہوگی۔ جب تک نیب کی یہ روش رہے گی کوئی سرمایہ کاری کرے گا نہ کوئی آئے گا،نیب کو احتساب کے نام سیاست کو بے توقیر کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیسے والے لوگوں نے اپنا پیسپ بیرون ملک منتقل کر دیا ہے۔جب تک لوگوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا جائے گا اس وقت تک لوگ بیرون ملک سرمایہ کاری کریں گے۔ اسٹاک ایکس چینج میں الو بول رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہمارے آئین کا ایک بنیادی ڈھانچہ ہے اگر آئین سے کھیلا گیا تو از سر نو آئین ساز اسمبلی بنانا ہوگی۔
کیا ہمارے حالات ایسے ہیں کہ ہم از سر نو آئین بنائیں۔جب تک نئے الیکشن نہیں ہوتے تبدیلی ممکن نہیں۔صدارتی نظام کی حمایت کرنے والے جمہوریت کے نہیں آمریت کی سوچ رکھتے ہیں۔ سیاسی لوگ وہ فیصلے نہیں کرتے جو جرنیلوں نے کئے۔ انہوں نے ملک کو نقصان پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی کی وجہ سے بھارت کا رویہ تبدیل ہو گیا ہے۔ایران بھی اب پاکستان کودھمکیاں دے رہا ہے۔ یہ کیسی خارجہ پالیسی ہے۔جب دباؤ آتا ہے تو ہم صرف بیانات دیتے ہیں۔
ملک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اسرائیل کی تسلیم کرنے کی صورت میں ہمیں کشمیر سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ جس دن گلگت کو صوبہ بنایا اس دن آپ سرینگر پر بھارت کا قبضہ تسلیم کرلیں گے۔
قائد اعظم نے 1940 میں کہ دیا تھا کہ ہم فلسطین کے ساتھ ہیں اور بیت المقدس پرناجائز قبضہ ہے۔اس وقت ہم فلسطین کے ساتھ جو کرہے ہیں اس کا پوری دنیا کو علم ہے۔قائد اعظم نے کشمیر کو شہہ رگ کہا جس کو ہم نے کاٹ دیا۔کشمیر کوموجودہ حکومت کی پالیسی نے پیچھے دھکیل دیا ہے۔موجودہ حکومت اس قابل بھی نہیں ہے کہ وہ قائد اعظم کا نام لے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ 1995میں سی پیک کو ہم نے ترتیب دیا تھا جس کا تمام ریکارڈ میرے پاس موجود ہے۔
گوادر ائیر پورٹ کی ذمہ داری چین نے خود لی ہے۔انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کو ختم کرنے کی بات ہورہی ہے۔فاٹا میں اس وقت کوئی قانون نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماراپہلا مسئلہ ہماری آزادی کا ہے۔ملکی حالات ایسے نہیں ہیں کہ ازسر نو آئین سازی کی جائے۔اگر ملک اور آئین کو نہ سنبھالا گیا تو جغرافیائی مسائل پیدا ہوں گے۔بین الااقومی دباو 191 برھ چکا ہے اور عام آدمی حالات سے پریشان ہے۔
انہوں نے کہا کہ قدرت کا قانون ہے کہ جب فغانستان میں سویت یونین تھا تو مجاہدین کے مذاکرات واشنگٹن میں ہوئے اوراب جب واشنگٹن افغانستان میں ہے تو مذاکرات ماسکومیں ہورہے ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جب بھارتی حکومت حاجیوں کو سبسڈی دے گی تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بھارت میں مسلمان آزاد نہیں جبکہ دوسری جانب سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حج اخراجات میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
اس شخص پر کیا بیتے گی جو چار سال سے حج کے لیے رقم جمع کررہا تھا اور ا ب اس میں اچانک میں بے تحاشہ اجافہ کردیا گیا ہے۔حاجیوں کو دی جانے والی سبسڈی بحال کی جائے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے پورے ملک کے لئے طرح طرح کی مشکلات پیدا کردی ہیں۔پتہ نہیں یہ حکمران ہمیں کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔ملک میں امن و امان کی صورت حال سے کھیلا جارہا ہے۔
احتساب کے نام پر انتقام کے لیے ادارے بنائے گئے ہیں۔اس حکومت سے بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔یہاں اس طرح کا ماحول بنادیا گیا ہے جو مارشل لاء سے پہلے ہوتا ہے۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں سیاستدانوں کا نہیں مارشل لاء کا ہاتھ تھا۔بین الاقوامی گریٹ گیم کاحصہ بننے کے لیے ملک میں مارشل لگایا جاتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جب تک نئے الیکشن نہیں ہوں گے اس وقت تک ملک کے حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ہم عوام کے چوری کیے گئے مینڈیٹ کوکبھی تسلیم نہیں کرینگے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان بات چیت کرانے میں اب تک کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔اسلام آباد میں احتجاج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس سلسلے میں ایم ایم اے کی دیگر جماعتوں سے مشاورت کریں گے۔