اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے ہی جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور ان کی اہلیہ کی نظرِ ثانی درخواستیں منظور کرتے ہوئے اُن کی جائیدادوں کا معاملہ فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) کو بھجوانے سے متعلق گزشتہ سال سنایا گیا سپریم کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔
دس رکنی بینچ میں شامل جسٹس منظور ملک اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا جب کہ بینچ میں شامل نئے جج جسٹس امین الدین نے بھی نظرِثانی درخواستوں کےحق میں فیصلہ دیا۔ گزشتہ فیصلے میں دونوں ججز نے سرینا عیسیٰ کی جائیدادوں کا معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کی حمایت کی تھی۔
چھ ججز نے سرینا عیسیٰ کی نظر ثانی درخواست منظور کرنے کا فیصلہ سنایا جب کہ چار ججز جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی امین نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے جسٹس فائز کی درخواست منظور نہیں کی البتہ سرینا عیسی کی درخواست منظور کر لی۔
پیر کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی نظرِ ثانی کیس کی سماعت کی۔
وفاقی حکومت کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کیس ایف بی آر کو نہ بھجواتی تو وفاقی حکومت نظرِ ثانی اپیل دائر کرتی، حکومت کیس ایف بی آر کو بھجوانے کا دفاع کرنے میں حق بجانب ہے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس میں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔ عمل درآمد کے بعد فیصلہ واپس نہیں لیا جا سکتا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کو مواد کا جائزہ لینے سے نہیں روکا جا سکتا۔
عامر رحمان نے کہا کہ آرٹیکل 211 کے تحت “سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج نہیں ہو سکتی، سپریم کورٹ صرف غیر معمولی حالات میں جوڈیشل کونسل میں مداخلت کر سکتی ہے۔ عدالت نے مجھ سے تین سوالات کے جواب مانگے تھے۔”
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اعتراض اٹھایا کہ عامر رحمان میرے ٹیکس یا فنانشل ایڈوائزر نہیں ہیں۔ حکومتی وکیل سے ایسا سوال نہیں پوچھنا چاہیے تھا۔ “جان بوجھ کر نیا مواد عدالتی کارروائی کا حصہ بنایا جا رہا ہے، کیا جسٹس عمر عطا بندیال آپ شکایت کنندہ ہیں؟”
دورانِ سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی نظر میں ان کی اہلیہ کی دستاویزات کا جائزہ لینا غلط ہے، عدالت کو شاید ایک فریق کو سن کر اٹھ جانا چاہیے۔
عامر رحمان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تین سوالات ہی سارے کیس کی بنیاد ہیں، جسٹس فائز عیسی جواب دیں تو تنازع حل ہو سکتا ہے۔ اس پر جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ کیا مجھے ٹیکس کمشنر نے طلب کر رکھا ہے جس پر گفتگو ہو رہی ہے۔” کیا عدالت اِنکم ٹیکس آفیسر ہے؟”
دوران دلائل جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایک بار پھر مداخلت کی تو جسٹس منظور ملک نے ان سے کہا کہ قاضی صاحب آپ کو اردو اور انگلش میں کئی بار سمجھا چکا ہوں، اب لگتا ہے پنجابی میں سمجھانا پڑے گا۔ قاضی صاحب مہربانی کریں اور بیٹھ جائیں۔
عامر رحمان نے دلائل دیے کہ عدلیہ کی آزادی ججز کے احتساب سے منسلک ہے، ایک جج کے اہلِ خانہ کی بیرونِ ملک جائیدادوں کا کیس سامنے آیا، ریفرنس کالعدم ہو گیا لیکن تنازع اب بھی برقرار ہے۔ عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ تنازع ختم ہو، سپریم جوڈیشل کونسل اس تنازع کے حل کے لیے متعلقہ فورم ہے۔
دورانَ سماعت جسٹس فائز عیسٰی نے پھر مداخلت کی جس پر جسٹس منظور ملک نے ٹوکا کہ قاضی صاحب آپ کے بولنے سے عامر رحمان ڈر جاتے ہیں، کیا حکومتی وکیل آپ سے لکھوایا کریں کہ کیا دلائل دینے ہیں کیا نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ معزز جج اور عدالتی ساکھ کا سوال ہے، ادارے کی ساکھ کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ جسٹس فائز عیسٰی کہتے ہیں وہ اہلیہ کے اثاثوں کے جوابدہ نہیں۔ اس پر سرینا عیسیٰ کھڑی ہوئیں اور کہا کہ جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر احتساب کے لیے بہت کوشاں ہیں دونوں ججز اپنے اور اپنی بیگمات کے اثاثے پبلک کریں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے تین سوالات کے جواب دینے سے انکار کیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ان سے کہا کہ میں نے انکار نہیں کیا سوالات پر اعتراض اٹھایا ہے، میرے منہ میں بات ڈالنے کی کوشش نہ کی جائے۔
جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ میرا میڈیا ٹرائل کل سے دوبارہ شروع ہو گیا ہے، ہمارے بیوی اور بچے حاضر ہیں۔ ریٹائرڈ جرنیل کو چھیڑیں گے تو شمالی علاقہ جات کی سیر کرائی جائے گی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ فارن اکاؤنٹس کیس میں اہم آبزرویشن دے چکی ہے، سات ججز نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی قابل احتساب ہیں۔ “ہم میں سے کوئی اثاثوں کی وضاحت نہیں کرسکے گا تواس کا بھی احتساب ہوگا۔”
وفاق کے وکیل عامر رحمان اور جسٹس فائز عیسی نے جواب الجواب مکمل کرلیا اور سرینا عیسی نے بھی جواب الجواب تحریری طورپر جمع کروا دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت مکمل ہونے پر عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس فائز عیسی کی نظر ثانی درخواست منظور کر لی۔
عدالت نے جسٹس فائز کیس میں نظر ثانی درخواستیں 6-4 کی اکثریت سے منظور کر لیں جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے حکم کے تناظر میں ہونے والی ایف بی آر کی کارروائی، تحقیقات اور رپورٹ کالعدم ہو گئی۔
سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ میں سے چھ ججز نے سرینا عیسی کی نظرِ ثانی درخواست منظور کر لی اور چار نے مسترد کی جب کہ جسٹس فائز کی نظرِ ثانی درخواست پانچ ججز نے منظور اور پانچ نے مسترد کی۔
جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس کا پس منظر
مئی 2019 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے تھے۔ ریفرنس میں جسٹس عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔
صدارتی ریفرنس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔
بعد ازاں سات اگست 2019 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو ذاتی طور پر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر دیا اور 300 سے زائد صفحات پر مشتمل تفصیلی درخواست دائر کی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ یہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے۔ لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ درخواست پر فیصلہ آنے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔
عدالت عظمیٰ نے 19 جون 2020 کو جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دیا تاہم دس میں سات ججز نے فائز عیسیٰ کے خلاف عائد الزامات پر ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دیا تھا جس کے خلاف جسٹس فائز عیسیٰ اور مختلف بار کونسلز نے نظرثانی کی اپیلیں دائر کی تھیں۔
ان اپیلوں کی سماعت اب تک شروع نہیں ہوئی تھی اور عدالت نے جسٹس فائز عیسیٰ کی طرف سے ان نظرثانی اپیلوں کو براہ راست دکھانے کے لیے ایک درخواست پر سماعت کی تھی جس کے فیصلہ میں یہ براہ راست دکھانے کی درخواست مسترد کر دی گئی۔
اب عدالت نے نظرِثانی اپیلیں منظور کر لی ہیں جس کے نتیجے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس تو پہلے ہی کالعدم قرار دے دیا گیا تھا اور اب ان کے اہل خانہ کے خلاف ایف بی آر کی تحقیقاتی رپورٹس بھی کالعدم قرار دے دی گئی ہیں۔