لاہور (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف کو “ریاست مخالف” بیانات دینے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اُنہیں منگل کو لاہور کی مقامی عدالت سے عبوری ضمانت خارج ہونے پر گرفتار کیا گیا۔
خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل جاوید لطیف نے نجی ٹی وی پر ایک ٹاک شو کے دوران مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو ملنے والی مبینہ دھمکیوں کے جواب میں کہا تھا کہ اگر اُنہیں کچھ ہوا تو ہم میں سے کوئی ‘پاکستان کھپے’ کا نعرہ نہیں لگائے گا۔
منگل کو لاہور کی سیشن عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج واجد منہاس نے لیگی رہنما جاوید لطیف کے خلاف ریاست مخالف بیان دینے کے کیس میں درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
عدالت میں جاوید لطیف کے وکیل فرہاد علی شاہ نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے موکل کے خلاف جھوٹی اور بے بنیاد ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ جاوید لطیف کا تعلق حزبِ اختلاف کی جماعت (ن) لیگ سے ہے جس کی وجہ سے پولیس نے بدنیتی کی بنیاد پر اِن کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
فرہاد علی شاہ نے عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر پورا کلپ سنے بغیر جاوید لطیف کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
سرکاری وکیل محمد شہباز نے عدالت کو بتایا کہ جاوید لطیف کا اپنے لیڈر کے لیے متنازع بیان حدود کو تجاوز کرنے کے مترادف ہے۔ جاوید لطیف کے بیان کی سی ڈی کو فرانزک کے لیے بھجوا دیا گیا ہے۔ پراسیکیوشن کا کیس قانون کے تمام تقاضوں کے مطابق ہے، اس مرحلے پر جاوید لطیف کی ضمانت نہیں بنتی۔
اِس موقع پر مدعی کے وکیل چوہدری انجم نے عدالت کو بتایا کہ جاوید لطیف نے ایک شخص کی محبت میں ریاست کو دھمکی دی ہے۔ اُن کا فرض ہے کہ متنازع بیان پر وہ قانون کے مطابق کارروائی کر سکیں۔ وکیل مدعی نے کہا کہ ‘پاکستان نہ کھپے’ کہنے سے بڑا کوئی جرم نہیں ہے۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد جاوید لطیف کی درخواست ضمانت پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی عبوری ضمانت خارج کر دی۔ ضمانت منسوخ ہونے کے بعد جاوید لطیف کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف نے جاوید لطیف کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔
اپنی گرفتاری کے موقع پر ایک بیان میں جاوید لطیف نےکہا کہ یہ ہے پاکستان جس میں آپ دہشت گردوں کو تو چھوڑ دیتے ہیں لیکن پاکستان میں خرابیوں کی نشان دہی کرنے والوں کو غدار کہا جاتا ہے۔
‘سیاست دانوں کو سوچ سمجھ کر بیانات دینے چاہئیں’
سینئر صحافی اور تجزیہ کار نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ سیاسی رہنماؤں کو ایسے بیانات سوچ سمجھ کر دینے چاہئیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ جب 2007 میں سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تو اس وقت اُن کے شوہر آصف زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھا جس کا مطلب تھا کہ پاکستان ہمیشہ سلامت رہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلیم بخاری نے کہا کہ یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ جاوید لطیف نے کس سیاق و سباق میں یہ بیان دیا۔
سلیم بخاری کے بقول جاوید لطیف نے کہا تھا کہ اگر غیر قانونی طور پر کسی نے مریم نواز کو گرفتار کیا تو وہ پاکستان کھپے کا نعرہ نہیں لگائیں گے۔ ان کے بقول اِس میں کہیں بھی بغاوت کا عنصر نہیں ہے۔ ہر شخص اس کی مختلف تشریح کر سکتا ہے۔
اُں کے بقول ایسا لگتا ہے کہ حزبِ اختلاف کے کسی بھی رہنما کو چھوٹی سی بات پر بھی گرفتار کرنے کے لیے ادارے تیار بیٹھے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سارے جرم حزبِ اختلاف کی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے لوگ ہی کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ اس نوعیت کی گرفتاریوں پر حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان میں ادارے آزاد ہیں اور وہ حکومتی دباؤ کے بغیر اپنا کام کر رہے ہیں۔ لہذٰا ان گرفتاریوں سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نسیم زہرہ نے کہا کہ جاوید لطیف اپنے بیان پر معافی مانگ چکے ہیں، لہذٰا معاملہ ختم کر دینا چاہیے تھا۔
نسیم زہرہ سمجھتی ہیں کہ جاوید لطیف نے غلط کیا جس کی وہ وضاحت بھی کر چکے ہیں۔ غصے میں ایسے ہو جاتا ہے۔ اُن کے مطابق جب بھی کوئی رہنما ایسی باتیں کرتا ہے تو لوگ بھی اُس کو پسند نہیں کرتے۔
جاوید لطیف کے خلاف ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسانے اور غداری سمیت سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
جاوید لطیف کے خلاف مقدمہ مارچ میں لاہور کے شہری جمیل سلیم کی مدعیت میں پولیس تھانہ ٹاؤن شپ میں درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر کے مطابق جاوید لطیف نے حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔
مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی، 153، 152 اے، 500، 505 (1) (بی)، 506 شامل کی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ اِس سے قبل ریاست مخالف بیانات دینے پر مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی اور سابق سینیٹر مشاہد اللہ خان کے خلاف بھی مقدمات درج کیے گئے تھے۔ اِسی طرح ریاست مخالف بیانات دینے پر پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے رکنِ قومی اسمبلی علی وزیر اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مفتی کفایت اللہ کے خلاف بھی مقدمات درج ہو چکے ہیں۔