واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے/اے پی/روئٹرز) امریکی وزیر دفاع نے حال ہی میں پرل ہاربر کا دورہ کیا اور وہاں امریکی دفاع کا ایک نیا تصور بیان کیا۔ اس موقع پر انہوں نے خبردار کیا کہ مستقبل کے ممکنہ تنازعات کی صورت ماضی سے بالکل مختلف ہو گی۔
امریکا کی پیسیفک کمان کا صدر دفتر ریاست ہوائی کے ساحلی مقام پرل ہاربر پر قائم ہے۔ اسے انڈو پیسیفک (ہند اور بحر الکاہل) کمان بھی کہا جاتا ہے۔ امریکی وزارتِ دفاع نے اس کمان کے نئے کمانڈر کا بھی اعلان چند ایام قبل کیا تھا۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے پرل ہاربر کا دورہ بھی کمان کی تبدیلی کے موقع پر کیا۔ انڈو پیسیفک کمان کے نئے کمانڈر ایڈمرل جان آقیلینو ہیں۔ انہوں نے اپنا نیا منصب بطور کمانڈر تیس اپریل کو سنبھالا ہے۔ قبل ازیں وہ فِفتھ فلیٹ کے کمانڈر تھے۔
نئی جنگ مختلف ہو گی
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن ملکی فوج کے فور اسٹار جنرل رہ چکے ہیں۔ انہوں نے وزارتِ دفاع کا منصب رواں برس بائیس جنوری کو سنبھالا تھا۔ پرل ہاربر میں کمان کی تبدیلی کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے سابق امریکی جنرل نے کہا کہ مستقبل کی نئی جنگ پرانی جنگوں سے بالکل مختلف انداز کی ہو گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مستقبل کے حالات کا تعین کرنا فی الوقت بہت مشکل ہے۔ امریکی وزارتِ دفاع کے سربراہ نے واشنگٹن سے کہا کہ وہ سائبر اور اسپیس خطرات کا اندازہ لگاتے ہوئے جدید ٹیکنیکل و ڈیجیٹل اختراعات کو دفاعی معاملات میں بھرپور انداز میں استعمال کرے۔
امریکی برتری قائم رہنے کا امکان؟
لائیڈ آسٹن نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ نئے دور کی عسکری ضروریات میں کوانٹم کمپیوٹنگ، مصنوعی دانش اور کمپیوٹر کی جدید مہارت کا استعمال شامل ہو سکتا ہے اور ان سے دفاعی ریسپونس کی رفتار بھی انتہائی تیز ہو گی۔ اسی ریسپونس میں اجتماعی ڈیٹا کا حصول اور اس کی شیئرنگ بھی شامل ہو گی۔
چینی افواج میں تیز رفتاری سے جدیدیت متعارف کرانے کے خدشات اور ممکنہ جارحانہ رویوں کے تناظر میں امریکی وزیر دفاع نے واضح کیا کہ اب اس تاثر میں رہنا درست نہیں کہ امریکا دنیا کی سب سے باصلاحیت مسلح افواج رکھتا ہے اور ایسے حالات میں جب مخالف قوتیں اپنی طاقت کی دھار کو تیز سے تیز تر کرنے میں مصروف ہوں۔ اپنی تقریر میں پینٹاگون کے سربراہ نے چین کا نام نہیں لیا۔
دوسری جانب اس موقع پر کمان سے دستبردار ہونے والے کمانڈر ایڈمرل فلپ ڈیوڈ سن نے اپنی تقریر میں ضرور کہا کہ انڈو پیسیفک خطے میں چین اپنے خطرناک ارادوں سے امریکی غلبے کو چیلنج کر رہا ہے۔ ماضی میں بھی ایڈمرل ڈیوڈسن تائیوان کے بارے میں بیجنگ کی پالیسی کے ناقد رہے ہیں۔
سفارت کاری’ فرسٹ‘
پرل ہاربر میں تقریر کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع نے صدر جو بائیڈن کی طرف سے خارجہ امور میں سفارتی عمل کو بنیادی حیثیت دینے کے عمل کو کو اہم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی فوج کی قوت ملکی سفارت کاروں کو کسی بھی تنازعے میں ممکنہ اضافے اور خطرے کی شدت کو کم کرنے میں مددگار دے گی۔
آسٹن کے مطابق امریکی فوج کسی بھی صورت میں تنہا نہیں رہنا چاہتی بلکہ ملکی سفارتی عمل میں سہارا بن کر امریکی قوت کو تقویت دے گی۔ امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ واشنگٹن اپنے متوقع مخالفین کو قائل کرنے کی کوشش جاری رکھے گا کہ جارحیت کی قیمت اور خطرات کسی کے مفاد میں نہیں ہوتے۔